دوائے مستعملہ کا استعمال آٹھویں۔قسط آٹے کا چھان/چوکر کے طبی فوائد۔Use of drugs Eighth installment Medical benefits of flour sifting / bran۔ استخدام المخدرات الدفعة الثامنة الفوائد الطبية لغربلة الدقيق / النخالة

 دوائے مستعملہ کا استعمال
آٹھویں۔قسط
آٹے کا چھان/چوکر کے طبی فوائد

Use of drugs
Eighth installment
Medical benefits of flour sifting / bran

 استخدام المخدرات
الدفعة الثامنة

الفوائد الطبية لغربلة الدقيق / النخالة

استخدام المخدرات الدفعة الثامنة الفوائد الطبية لغربلة الدقيق / النخالة


۔۔۔۔۔۔۔۔
دوائے مستعملہ کا استعمال
آٹھویں۔قسط
حررہ عبد فقیر۔حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ کاہنہ لاہور
آٹے کا چھان/چوکر کے طبی فوائد
دیہاتوں میںکوئی گھر ایسا شاید ہی ایسا ہوگا جس میں آٹے کا چھان موجود نہ ہو۔اللہ تعالیٰ نے کچھ نعمتیں بے حساب و بے اندازہ ہمیں عنایت فرمائیں ہیں، ان کی بہتات ہی ہمارے لئےناقدری کا سبب ہے۔نعمت کی قدر اسی وقت کی جاتی ہے، نایاب ہوجائے یا چھین لی جائے۔کسی چیز کی آسانی سے دستیابی بھی ناقدری کا سبب بنتی ہے۔بلکہ یوں کہنا بے جا نہ ہوگا کہ جو چیزیں ہمیں مسیر ہیں انہیں نعمتیں شمار ہی نہیں کیا جاتا۔جو چیزیں مسیر نہیں ان کی تمناو طلب کی جاتی ہے ۔یہ انسانی نفسیات آج سے ہی کام نہیں کررہی بلکہ صدیوں سے انسان کا یہی وطیرہ چلا آرہا ہے۔بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے غیبی مدد کے ذریعہ من و سلویٰ کا بندوبست کیا تھا۔وہ جلد ہے اکتا گئے اورسیدنا موسیٰ علیہ السلام سے مطالبہ کردیا کہ ہم من و سلویٰ کھاتے کھاتے اکتاچکے ہیں ،مزہ و کھانے کی یکسانیت سے جی بھرگیا ہے۔اب ہمیں مختلف قسم کے اناج،جیسے گہیوں۔جو۔سبزیوں میں ساگ پات۔صلاد کے طورپر ککڑیاں۔دالیں ۔مسور وغیرہ (سورہ البقرہ)
 اس آیت کریمہ کاایک خاص طبی نکتہ۔
رب کائینات جس طرح من و سلویٰ اتار سکتا تھا اسی طرح وہ ادنی چیزیں جیسے پیاز ،لہسن۔کھیرا ککڑی۔مسور۔گندم۔جو وغیرہ بآسانی دے سکتا تھا۔جنہیں قران کریم کی زبان میں ادنی یعنی کمتر درجہ قرار دیا گیا تھا۔من و سلویٰ ہضم کرنے میں کسی مشقت کی ضرورت نہ تھی۔کھانے کے بعد آسانی سے تحلل ہوکر جزو بدن ہوجاتے تھے۔جب کہ گندم۔مسور، ککڑی،پیاز،لہسن وغیرہ کے ہضم کرنے کے لئے محنت و مشقت کی ضرورت ہوگی،انہیں کھاکر آرام دہ زندگی گزار نے سے بہت سی طبی قباحتیں پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔
اگر آیت کا اگلا حصہ پڑھیں تو اس میں پر حکمت بات بتائی گئی ہے کہ یہ چیزیں درکار ہیں تو کسی آبادی میں چلے جائو وہاں ان کے حصول کے لئے وہی کچھ کرو جو ان کے حصول کے لئے دوسرے لوگ کرتے ہیں۔کھیتی باڑی کرو۔محنت مشقت کرو،اس طریقے سے تمہیں مطلوبہ چیزیں بھی مل جائیں گی،اور ان کے ہضم کرنے کا بندوبست بھی ہوجائے گا۔طبی لحاظ سے یہ چیزیں کھاکر تم آشائش پسند نہیں رہ سکتے۔تمہیں انہیں پچانے کے لئے محنت /مشقت کی ضرورت ہوگی ورنہ یہ چیزیں کچھ عرصہ بعدہاضمہ کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔جو بھی ان اشیاء کو یا ان سے ملتی جلتی آشیاء کھائے پئے گا،اسے تندرست رہنے کے لئے  پچانا پڑے گا۔محنت و مشقت سے کام لینا پڑے گا۔ورنہ یہی چیزیں امراض و اقسام کا سبب بننے لگیں گی۔قران کریم نے قصہ بنی اسرائیل میں جہاں سے تمدنی نکات بیان فرمائے ہین وہیں پر طبی قواعد قو ضوابط بھی ارشاد فرمادئے ہیں۔
طب کی گئی اشیاء میں گندم اور" جو" کا بھی مطالبہ تھا۔ان کا مغز صدیوں س بطور غذا انسانی ضرورت پورا کرتے آئے ہیں۔ان دونوں اجناس کو مختلف طریقوں سے استعمال کیا جاتا ہے۔عمومی طورپر انہیں پیس کر آٹا بناکر کھایا جاتا ہے۔اس چھلکے کو جسے چھان /چوکر کہا جاتا ہے۔کم کم ہی قابل توجہ سمجھاجاتا ہے ،مال مویشی رکھنے والے لوگ پھوک کو اپنے جانوروںکے لئے مخصوص سمجھتےہیں ،انہیں بطور چارہ کھلاتے ہیں۔انسان جیسے جیسے جینے کا فطری انداز چھوڑ کر مصنوعی انداز اختیارکرتا جارہا ہے ویسے ویسے صحت کے حوالے سے مسائل جنم لیتے جارہے ہیں۔جب سے انسان نے تجارتی انداز میں سوچنا شروع کیا ہے اس وقت سے صحت کے مسائل جنم لینا شروع ہوگئے ہیں ۔غذائی اجناس کی پالش کرنا شروع کردیا۔اس بات سے قطع نظر کہ انسان عمل سے انسانی صحت پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔آٹا جو ریفائن کرنے کے چکر میں باریک سے باریک تر کردیا۔مصنوعی طورپر لذت میں تو اضافہ کردیا گیا لیکن صحت تباہ کردی گئی ۔ہمارے نظام ہضم کو تندرست رہنے کے لئے ریشہ دار اشیاء کی ضرورت ہوتی ہے۔آنتوں کو باریک سے باریک اشیاء کے استعمال سے بہت تکلیف ہوتی ہے۔انہیں تو اپنے افعال سر انجام دینے کے لئے ریشہ دار اشیاء کی ضرورت ہوتی ہے۔جب کہ قدرت نے انسان کے لئے جو غذائی اجناس پیدا کی ہیں ان کے ساتھ بھوسے کو بطور حفاظتی خول شامل کردیا ہے۔قدرت کوئی بھی چیز ناقص یا ادھوری پیدا نہیں کرتی۔اگر کوئی نقص نظر آتا ہے تو معلومات کی کمی اور اس کی مکمل تحقیق نہ ہونے کی وجہ سے آتا ہے۔سورہ یوسف میں مصری قحط آنے سے پہلے سیدنا یوسف علیہ السلام نے  انا ج کو محفوظ کرنے کی ترکیب بتائی کہ گندم کو کوشوں میں جوں کا توں رہنے دیا جائے صرف اسی قدر دانوں کو بھوسہ سے الگ کیا جائے جتنی ضرورت ہو،اس میں حکمت یہ تھی کہ کوشہ گندم کی موجودگی میں دانے کو کیڑا نہیں لگتا۔اسی طرھ جب تک دانہ پیسا نہیں جاتا یعنی اس کا حفاظی خول اتار کر الگ نہیں کردیا جاتا اس وقت تک دانہ محفوظ رہتا ہے۔
طب نبوی میں انسان کے لئے آفاقی اصول بتائے گئے ہیں ،تندرستی کی بنیادیں مہیا کی گئی ہیں
(جاری ہے)

Comments

Popular posts from this blog