بکرا،دنبہ اور چھترا کے گوشت کےطبی فوائد۔Medical Benefits of Goat, Sheep and Umbrella Meat۔الفوائد الطبية لحوم الماعز والأغنام والمظلة

  بکرا،دنبہ اور چھترا کے گوشت کےطبی فوائد

Medical Benefits of Goat, Sheep and Umbrella Meat

الفوائد الطبية لحوم الماعز والأغنام والمظلة

بکرا،دنبہ اور چھترا کے گوشت کےطبی فوائد۔Medical Benefits of Goat, Sheep and Umbrella Meat۔الفوائد الطبية لحوم الماعز والأغنام والمظلة


 بکرا،دنبہ اور چھترا کے گوشت کےطبی فوائد۔
۔Medical Benefits of Goat, Sheep and Umbrella Meat
۔الفوائد الطبية لحوم الماعز والأغنام والمظلة
حررہ عبد فقیر۔حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ کاہنہ لاہور
سنت ابراہیمی صدیوں سے جوش و خروش سے مسلمان ادا کرتے آئے ہیں۔امسال بھی یہ مذہبی جذبہ جاری ہے۔عید قربان کے موقع پر اہل اسلا م مختلف قسم کے جانورقربانی کے لئے منتخب کرتے ہیں۔بکرا۔گائے۔دنبہ۔اونٹ۔بھینس وغیرہ جانوروں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ان کے فضائل و مراتب آپ نےمختلف علماء کی تحریروں میں پڑھا ہوگا۔میڈیا پربے شمار پوسٹیں۔پمفلٹ۔اور کتب لکھی جاچکی ہیں۔اس جگہ ان جانوروں کے طبی فوائد تحریر کررہے ہیں ،ان کے مزاج۔ان کے طبی فوائد اورگھریلو طورپر ترتیب دئے گئے نسخہ جات لکھے جارہے ہیں۔
اللہ پاک کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک گوشت بھی ہے۔اس نعمت کا حُصول مختلف حلال جانوروں کے ذریعے ہوسکتا ہے۔اللہ کریم نے قراٰنِ پاک میں حلال جانوروں کے متعلّق ارشاد فرمایا: ( اُحِلَّتْ لَكُمْ بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ) : تمہارے لئے حلال ہوئے بے زبان مویشی۔(پ6،المآئدۃ:1)
گوشت کی غذائیت جسمِ انسانی کے لئے گوشت ایک مکمل قوّت بخش غِذا کی حیثیت رکھتا ہے۔اس میں موجود پروٹین اور دوسرے اجزا سےہمارے جسم کو پروٹین، لحمیات، آئرن، وٹامنB وغیرہ حاصل ہوتے ہیں نیز وٹامن AاورB  ہڈّیوں، دانتوں، آنکھوں، دماغ اور جِلد کے لئے بھی مفید ہیں۔
گوشت کی اقسام مرغی اور مچھلی کےگوشت کو White Meat جبکہ چوپایوں(چار پاؤں والے جانوروں) کے گوشت کو Red Meat یعنی سُرخ گوشت کہا جاتا ہے۔
 گوشت کے فوائد و خواص     MEAT
ماہرین تغذیہ نے گوشت کو بطور غذا و دوا مفید قرار دیا ہے۔ اس کی تاثیر گرم تر ہے۔ یہ جسم انسانی میں خون اور گوشت بڑھاتا ہے۔ بادی دور کرتا اور طاقت بخشتا ہے۔ بدن کو موٹا اور جسم میں چربی پیدا کرتا ہے۔ البتہ اس کا کثرت سے استعمال دماغ کو کند کر دیتا ہے۔
جدید تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ گوشت کے اجزائے ملحمہ یعنی گوشت و خون پیدا کرنے والے اجزا چربی، نمک اور پانی پر مشتمل ہیں۔ چربی میں وٹامن ’’اے‘‘ پایا جاتا ہے جس سے ہڈیوں کو غذا پہنچتی ہے۔ اجزائے ملحمہ کی مقدار زیادہ ہونے کے باعث یہ غذائیت بخش ہے۔ تاہم گوشت زیادہ کھانے سے گردوں میں یورک ایسڈ کی جو زیادتی ہو جاتی ہے، گردے اسے بآسانی خارج نہیں کر سکتے۔ گوشت بدن میں صفرا زیادہ کرتا ہے۔ ازحد گوشت خوری سے مثانے اور گردے کے امراض رونما ہوتے ہیں۔ جگر، گردوں، قلب اور دوسرے اعضا بدن کے فعل میں نقص آ جاتا ہے۔ اس لیے گوشت کا استعمال کم کرنا چاہیے۔
گوشت عموماً خوب بھون کر پکایا جاتا ہے۔ اس طریقے سے گوشت کے مقوی اجزا جل جاتے ہیں۔ حیاتین بھی ضائع ہوتے ہیں۔ روغنی اجزا بھی نہیں رہتے۔ چناںچہ اسے کھانے کا طریقہ یہ ہے کہ ابلا ہوا گوشت کھایا جائے۔ یا بہترین گُر یہ ہے کہ پہلے گوشت کو مصالحہ وغیرہ ڈال کر بھون لیں پھر پانی ڈال کر پکائیے۔ یوں گوشت کی ساری طاقت شوربے میں آ جاتی ہے۔ اسی لیے شوربا زیادہ مفید ہے۔
اس طریقے میں گوشت کی بوٹی فائدہ مند نہیں رہتی بلکہ قدرے قابض ہو جاتی ہے۔ اسی لیے گوشت کے ساتھ سبزی ڈال کر پکانا مفید ہے۔ یوں اس کی مضرت کم ہو جاتی ہے۔ سبزی کی وجہ سے گوشت فائدہ مند اور صحت بخش غذا بن جاتا ہے۔ دماغی کام کرنے والے افراد گوشت کبھی کبھی کھائیں۔
حضرت ابو الدرداؓ کی حدیث سے مروی ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا ’’دنیا والوں اور جنتیوں کے کھانے کا سردار گوشت ہے۔‘‘
امام زہری نے بیان کیا ہے کہ گوشت خوری سے 70قوتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ محمد بن واسع کا خیال ہے کہ گوشت خوری سے بصارت تیز ہوتی ہے۔ چناںچہ حضرت علیؓ سے مروی ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا کہ گوشت کھاؤ، اس لیے کہ یہ بدن کے رنگ کو نکھارتا ہے۔ پیٹ بڑھنے نہیں دیتا۔ اخلاق و عادات بہتر بناتا ہے۔ نافع کا بیان ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ ماہ رمضان میں اکثر گوشت کھاتے تھے۔ حضرت علیؓ سے منقول ہے کہ جس نے چالیس رات گوشت کھانا چھوڑ دیا، اس کا اخلاق برا ہو جائے گا۔
گوشت کی مختلف اقسام ہیں۔ وہ اپنے  اصول و طبیعت کے اعتبار سے مختلف ہیں۔ مگر یہاں صرف قربانی کے جانوروں کا ذکر کیا جا رہا ہے۔
(1)بھیڑ کا گوشت۔۔لحم الضان اعصابی عضلاتی ہے۔حرارت عزیزی پیدا کرتا ہے۔غدی مریضوں کے لئے بے حد مفید ہوتا ہے اس میں چربی زیادہ ہوتی ہے۔یہ دوسرے درجے میں گرم اور پہلے درجے میں تر ہوتا ہے۔ یعنی گرم و تر اور زود ہضم ہے۔ فوائد کے لحاظ سے دوسرے درجے پر ہے۔ جسمانی گوشت بڑھاتا اور طاقت بخشتا ہے۔ ایک سالہ بھیڑ کا گوشت سب سے عمدہ ہوتا ہے۔ جس کا ہاضمہ اچھا ہو، اس میں صالح خون پیدا کرتا ہے۔ سرد اور معتدل مزاج والوں کے لیے عمدہ غذا ہے۔ جو لوگ سرد مقامات میں رہیں اور سرما میں محنت و ریاضت کریں، ان کے لئےنافع ہے۔ سوداوی مزاج والوں کے لیے بھی مفید ہے۔ ذہن اور حافظہ قوی بناتا ہے۔
لاغر اور بوڑھی بھیڑ کا گوشت خراب اور مضر صحت ہے۔ سب سے زیادہ عمدہ گوشت سیاہ رنگ کی بھیڑ کا ہوتا ہے۔ دائیں طرف کا گوشت بائیں طرف سے اور اگلا حصہ پچھلے حصے سے عمدہ ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو اگلے حصے اور سر کو چھوڑ کر بالائی حصے کا گوشت بہت زیادہ مرغوب تھا۔ یہ زیریں حصہ کے مقابلے میں زیادہ ہلکا اور عمدہ ہوتا ہے۔ گردن کا گوشت زود ہضم اور ہلکا ہے۔ دست کا سب سے، لذیذ اور زود ہضم ہوتا ہے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مذکور ہے کہ حضورصلی الله علیہ وسلم کو پشت کا گوشت مرغوب تھا کہ اس میں غذائیت زیادہ ہوتی ہے۔
(2)(دنبہ)گوشت دنبہ۔لحم الکبش،گوشت گوسفند۔اعصابی عضلاتی ہے۔کثیر الغذاء۔مسمن بدن۔دیر ہضم۔ملطف ہے۔جنہیں چربی کی کمی ہو خشکی کی زیادتی ہو ان کے لئے تحفہ ہے ۔تمام جانوروں کے گوشت سے تری و رطوبت پیدا کرنے میں سب سے بڑھ کر ہے۔
(3)بکری کا گوشت۔۔ماعز۔گوسفند۔گوٹ۔غدی اعصابی ہے۔بکری کے گوشت کھانے۔و دودھ پینے والوں کو کبھی ٹی بی نہیں ہوسکتی۔سل دق کے لئے شفا کا پیام ہے۔اس سے خون میں حرارت پیدا ہوتی ہے۔دق الاطفال۔بد ہضمی وغیرہ میں بکری کا دودھ آبحیات ہے۔بکری جن جڑی بوٹیوں کو کھاتی ہے ان کا اثر فوراََ اس کے دودھ میں آجاتا ہے ۔حکما اس راز سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔اس کا مزاج گرم تر ہے۔ یہ طاقت بخش ہے۔ خون پیدا کرتا ہے۔ تپ دق، سنگرہنی اور کمزوری میں اس کی یخنی مفید ہے۔ ماہرین طب کی تحقیق کے مطابق بکری یا بکرے کے جس عضو کا گوشت کھایا جائے، انسان کے اسی عضو کو طاقت حاصل ہوتی ہے۔
ایک روایت میں حضورصلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا ’’بکری کی نگہداشت اچھی طرح کرو اور اس سے تکلیف دور کرتے رہو اس لیے کہ یہ جنت کے چوپایوں میں سے ہے۔‘‘ بکری کے ایک سالہ بچے کا گوشت معتدل ہوتا ہے۔ عرق النساء کے درد میں جس کو لنگڑی کا درد بھی کہتے ہیں، علاج کے لیے حضورصلی الله علیه وسلم  نے فرمایا: ’’بکری کے پچھلے حصہ (پُٹھ) کو پکا کر گلا دیا جائے۔ اس کا شوربا تین دن تک پلایاجائے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


Comments

Popular posts from this blog