مستعملہ ادویات کا دوبارہ استعمال۔ چوتھی قسط۔Reuse of used drugs. The fourth installment۔إعادة استخدام الأدوية المستعملة. الدفعة الرابعة

 مستعملہ ادویات کا  دوبارہ استعمال۔
چوتھی قسط

Reuse of used drugs.
The fourth installment

إعادة استخدام الأدوية المستعملة.
الدفعة الرابعة

إعادة استخدام الأدوية المستعملة. الدفعة الرابعة

ادویہ مستعملہ کا استعمال

چوتھی قسط


حررہ عبد فقیر۔حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ کاہنہ لاہور
طب نبویﷺ کا طریقہ علاج اور اس کی غذائی ترتیب سب علاجوں سے نرالی ہے،دیسی طب میں دوائے مستعملہ کا مسئلہ الگ سے حیثیت رکھتا ہے۔اگر کوئی ایسی حساس دوا ہو ج پانی میں ابلنے کے بعد اپنی ھئیت برقرار نہ رکھ سکے۔یا اپنی حالت میں تغیر پزیر ہوجائے تو اس بارہ میں سوچنا ہوگا کہاسے کام میں لایا جاسکتا ہے کہ نہیں۔مثلاََ ایک حدیث مبارکہ ہے:رسول اللہﷺ نبیذ پسند فرماتے تھے،اگر اس کے اندر نشہ پیدا ہونے کا خدشہ موجود ہوتا تواس مواد کو ضائع فرمادیا کرتے تھے۔
 نبیذ کیا ہے
نبیذ تازہ اور خشک دونوں قسم کے پھلوں سے تیار کیا جاتا ہے، بازار میں ہر قسم کے پھل کا جوس دستیاب ہے، یہ بھی نبیذ ہی کی ایک قسم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جو نبیذ تیار کیا جاتا تھا اس کی صورت یہ تھی:’’کسی بھی خشک پھل )منقی یا چھوہارے( کو پانی میں ڈال دیا جاتا، جب وہ نرم ہو جاتا تو پھل کو ہاتھوں سے مسل کر کسی کپڑے سے اس کا پانی نچوڑ لیا جاتا تا کہ پھل کا پھوگ الگ ہو جائے، پھل کے اثر والا نچڑا ہوا پانی نبیذ کہلاتا ہے یہ ذائقہ دار اور مقوی ہوتاہے۔‘‘
اسے نوش کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن شرط یہ ہے کہ اس میں نشہ پیدا نہ ہو، اس کی علامت یہ ہے کہ اس میں جھاگ پیدا ہو جائے یا ذائقہ میں ترشی محسوس ہونے لگے تو ایسے حالات میں اسے پینا درست نہیں۔ درست حالت میں جو نبیذ ہوتا ہے اسے گرمیوں میں ایک دن اور سردیوں میں تین دن تک پینے کی اجازت ہے کیونکہ زیادہ دیر تک پڑا رہنے کی وجہ سے اس میں نشہ آنے کا اندیشہ ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ ہر مشروب پیا جا سکتا ہے مگر نشہ میں نہ آئو۔ )نسائی، الاشربہ: ۵۶۸۲( بلکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک آدمی نے پوچھا: ’’میں میٹھا نبیذ نوش کرتا ہوں تو پینے کے بعد میرے پیٹ میں گُڑ گُڑ ہوتی ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایسی نبیذ مت نوش کرو اگرچہ وہ شہد سے زیادہ میٹھا ہو۔‘‘)نسائی، الاشربہ: ۵۶۹۴)
حکمائے کرام نے علم الصیدلۃ کے ضمن میں اس پر طویل بحث کی ہے کہ خمیر کب اور کیوں پیدا ہوتا ہے اور خمیر کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں انسانی وجود کمیر کے کونسے اثرات مرتب ہوتے ہیں؟۔خمیر اس کائنات بالخصوص انسانی جسم کے لئے کس قدر اہمیت رکھتا ہے۔؟
  دیسی طب میں املی یا آلو بخارے کی مثال پیش کی جاسکتی ہے کہ جب انہیں بھگولیا جائے تو ان کی ہیئت میں فرق آجا تا ہےاملی سے حصول کھٹائی مطلوب ہوتی ہے جب مقصد فوت ہوجائے توچیز ناکارہ تصور کی جاتی ہے۔لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے۔املی کو جتنا بھی بھگولیا جائے پھر بھی اس کے اثرات باقی رہتے ہیں۔اس کے بیج جنہیں بھگونے سے نرمائی ضرور پیدا ہوجاتی ہے لیکن ان کے طبی فوائد موجود رہتے ہیں ان کی گریاں نکال کر محفوظ کیا جاسکتا ہے۔جسے کئی طبی مقاصد لئے جاسکتے ہیں ۔رہا اس کا نجر پنجر تو املی کے اس مواد کو بھی طبی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔اس کے کونسے فوائد ہیں یہ بحث کسی اور وقت کے لئے چھوڑتے ہیں۔
دوائے مستملہ کے استعمال ۔ایک خاص طبی نکتہ ذہن میں رہنا چاہئے فطری انداز میں پائی جانے والی اشیاء کو ہم نے اسی قدر سمجھا ہے یا سمجھنے کی کوشش کی ہے جتنی ضرورت تھی،یا سرسری طور پر جو فوائد سامنے آئے۔ضروری نہیں کہ جو فوائد ہمیں معمول ہیں قدرت نے بھی اسی قدر رکھے ہوں ؟ ایسا ہرگز نہیں ہے۔یہ فوائد ہماری سمجھ کے اعتبار سے تو شمار کئے جاسکتے ہیں،لیکن قدرتی اعتبار نہیں۔قدرتی اشیاء کے اس قدر فوائد ہوتے ہیں تحقیق کرنے والوں کے سامنے ہر روز نت نئے انداز ابھرتے رہتے ہیں۔جو فوائد قدرتی اشیاء کے بیان کئے جاتے ہیں وہ ہمارے مشاہدات و مسموعات اور تجربات ہوتے ہیں نہ کہ اس جڑی بوٹی کے کما حقہ فوائد،جن جڑی بوٹیوں پر تحیقیق و تجربات کئے گئے ان کے فوائد و اثرات نئی جہت سے سامنے آتے رہے روز افزوں یہ سلسلہ جاری ہے۔یہ اثرات اسی دائرہ میں تو مقید نہیں جو ان کے گرد کسی خاص ضرورت کے تحت کھینچ دیا گیا یا معلوم کرنے والے نے اس پر توجہ ہے۔اگر ایک ایک جری بوٹی پر دائرہ تحقیق میں لاکر توجہ کا مستحق ٹہرایاجائے توایک نیا جہاں سامنے آتا ہے۔
طبیب لوگ عمومی طورپر تحقیق و تدقیق کی طرف توجہ نہیں کرتے جڑی بوٹیوں کو سنے سنائے انداز میں پا جو محدود طبی فوائد کسی نے لکھ دئے ہیں اپنے تجربات کو اسی دائرہ میں مقید رکھنا میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔تحقیق کی طرف ان کا دھیان ہی نہیں جاتا۔تحقیق کے بجائے نعم البدل کی طرف نگاہ اٹھتی ہے۔کہ اگر فلاں چیز دستیاب نہیں ہے یا کسی وجہ سے اس کا حصول ممکن نہیں رہا۔تو اس کی جگہ پر دوسری چیز یا دستیاب چیز استعمال کرلی جائے۔جہاں کہیںبھی علم العقایقر میں کسی جڑی بوٹی کے خواص لکھے ہوئے ملیں گے وہیں پر اس کا نعم البدل بھی لکھا ہوا ملےگا۔
کیا یہ ممکن ہے کہ ایک چیز دوسری کا قائم مقام یا نعم البدل ثابت ہوسکے؟۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔




Comments

Popular posts from this blog