مستعملہ ادویات کا دوبارہ استعمال۔ تیسری قسطReuse of used drugs. 3..إعادة استخدام الأدوية المستعملة. 3

 مستعملہ ادویات کا  دوبارہ استعمال۔
تیسری قسط

 Reuse of used drugs.
3

 إعادة استخدام الأدوية المستعملة.
3

 

إعادة استخدام الأدوية المستعملة. 3


تیسری قسط،،
دوائے مستعملہ کا استعمال۔۔۔

حررہ عبد فقیر۔حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ کاہنہ لاہور

دیسی ادویات عمومی طورپر تازہ حالت میں استعمال کی جاتی ہیں،لیکن جب سے حکماء ئے کرام نے نسخہ بازی کی طرف توجہ کی ہے پنسار کی اہمیت میں اضافہ ہوگیا ہے۔دیسی اددویہ سازی اگر کسی کو اس فن پر عبور حال ہوجائے تو بہت بڑی نعمت ہے۔اگر اس میں مہارت پیدا کی جائے تو ماہر استاد کی نگرانی میں جلد کامیابی مل سکتی ہے۔لیکن اس وقت  کسی کی ماتحتی میں رہ کرفن و ہنر میں پختگی پیدا کرنا شاید و بائید۔لوگوں میں اطاعت کا مادہ مفقود ہوجاتا رہا ہے۔خود نمائشی و خود فریبی پروان چڑھ رہی ہے۔
ادویہ سازی میں مہارت پیدا کرنا۔
علم الصیدلۃ بہت بڑا ہنر و فن ہے جو کسی بھی حامل سے مہارت کا تقاضہ کرتا ہے،طب کی یہ جہت ملٹی نیشنل کمپنیوں یا دوا ساز اداروں کے لئے مخصوص ہوکر رہ گئی ہے۔اطبائے محترمین بھی سہل پسندی کو شعار بنا چکے ہیں وہ گھوٹنے پیٹے پر تیار شدہ نسخہ لینا زیادہ پسند کرتے ہیں ،ان کی سوچ ہے کہ جب ہمیں سہل و آسان طریقے سے پیسے ملتے ہیں تو کوٹنے پیٹے کے جھنجٹ میں کون پڑے اصل مقصد تو حصول زر ہے،وہ جیسے بھی ممکن ہو۔اس سہل پسندی نے طب کو تباہی کے دھانے پر پہنچا دیا ہے۔ تجربات قدرت کا وہ عطیہ ہیں جن کا کوئی نعم البدل نہیں ہوسکتا۔انگریزی کہاوت ہے"تجربہ ام العلوم ہے"(گنج شائیگاں)اس کے معانی و مطالب مین غجب کی گہرائی ہے
طب کا جنازہ طبی تنظیموں کے کاندھوں پر۔
جب سے طبی میدان میں تنظیم سازیاور حکماء کے حقوق کا واویلا شروع ہوا ہے وہان کچھ لوگوں کو بہت زیادہ فائدہ ہوا ،دوسری طرف  طب سے وابسطہ کچھ لوگ جو پہلے ہی جان بلب تھے مزید مشکل میں آگئے ۔کیونکہ پہلا طبقہ وسائل کی کثرت اور حکومتی سہاروے کی بنیاد پر ہر طرح کے فوائد خود سمیٹنے لگے،اطباء کے حقوق کے نام پر طب کا گلا گھوٹنے لگے۔طبیب ہیں کہ ڈر کی وجہ سے ان کی بتیسی بندھی ہوئی ہے۔انہیں مختلف انداز میں یوں خوف ذدہ کیا جاتا ہے کہ اگر وہ کسی تنظیم کے ساتھ نہ جڑے تو انہیں اچک لیا جائے گا۔
اس لئے یہ کمزور طبقہ کوف ڈہ ہوکر اپنا وزن کسی نہ کسی کے پلڑے میںڈال دیتا ہے۔طبیب کے غم میں نڈھال نمائیندہ اس وابسطگی کو جگہ جگہ فروخت کرتا ہے۔مافیا قسم کے اداروں کی جارہ داری قائم کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتا ہے۔حالیہ چند سالوں میں طبیب پر دارو گیر کا جو سلسلہ شروع ہوا ان مین ان مہربانوںکی شراکت  سے ہوا ،مخلتف قیود اس لئے عائد کی گئیں کہ میدان طب میں اترنے والے طبیب سے زیادہ دوا فروش بنیں۔اور دوا بھی انہی کمپنیوں کی خریدیں جن کے نمائندے حکماء تنظیموں میں طبیب کے نام پر طبیب و طب کو درگورکرنے میں مخلصانہ کاوشین کررہے ہیں۔
طب کی خدمت
زندگی کی تلخ حقیقت یہ ہے جب گروہ بندیاں ہوں تو کام و کاز کو ہمیشہ نقصان پہنچتا ہے۔جو لوگ بھی کسی ادارہ میں تنظیم سازی کریں وہ کبھی اس فن و ہنر کی خدمت نہیں کرسکتے ،کیونکہ خدمت کے لئے وقت و وسائل درکار ہوتے ہیں ،یہ دونوں توانائیاں ہلڑ بازی کی نظر ہوجاتی ہیں،اس لئے تنظیم سے وابسطہ لوگ کسی فن و ہنر میں خال خال ہی کدمت کرپاتے ہیں۔ورنہ خدمت کے نام پر خود فریبی کا شکار ہوتے ہیں اور دوسروں کو دھوکہ دیتے ہیں۔جو بھی طب کی خدمت کرنا چاہتا ہے اسے ان ہنگامہ آرائیوں سے الگ ہوکر کدمت کرنا ہوگی۔ایک محقق و مصلح کو کہاں زیب دیتا ہے اپنے وقت کو یوں ضائع کرے۔
محقیقن زمانہ علم دوست افرادکبھی ہلڑ بازی کا شکار نہیں ہوتے انہیں یکسوئی چاہئے،انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جو کوشش کرتا ہے لیس للانسان الاماسعی۔یہ قانون فطرت کے خلاف ہے کہ گروہ بندیوں مین بٹ کر اپنا وقت ضائع کرو اور تمہیں تحقیق کا ثمرہ ملے۔جو کرتے ہو وہی کچھ لوٹ کر آتا ہے۔اس لئے جو طب کی خدمت کرنا چاہے اسے گروہ بندی و تعصب ست اپنا دامن بچانا چاہئے۔یہ کہنا مبالغہ آرائی نہ ہوگا طب کی تباہی میں گروہ بندی کے شکار ہوس جاہ کے شکار لوگوں نے جتنا نقصان پہنچایا شاید ہی کسی غیر نے اس بارہ میں سوچا ہو؟

Comments

Popular posts from this blog