طب نبوی ﷺ اورفطرت.Prophetic Medicine and Nature.الطب النبوي والطبيعة

 

 طب نبوی ﷺ اورفطرت

Prophetic Medicine and Nature

الطب النبوي والطبيعة

 


 

 

 

  طب نبوی ﷺ اورفطرت

تحریر
پیش کردہ:۔۔۔۔۔۔۔۔حکیم قاری محمد یونس شاہد میو


قران کریم صحیفہ فطرت ہے۔اس نے انسانی فطرت اور اس کی تخلیق کے بارہ میں بنیادی قواعدوکلیات بیان فرمائےہیں۔اس کی تخلیق کے مراحل واوقات بیان فرمائے ہیں۔
تخلیق آدم دست قدرت کا شاہکار نمونہ ہے۔جسے احسن تقویم قرار دیا گیا (التین)پیدائش/تخلیق کےوقت آدم کاقدساٹھ فٹ تھا۔جب دوبارہ سے جنت میں داخلہ ہوگا توانسان اصل قد کی طرف لوٹ جائے گا (صحیح البخاری حدیث ( 3336 ) صحیح مسلم حديث ( 7092 )
سیدنا آدم جتنے دن بھی جنت میں رہےبیماری سے مبرا رہے کیونکہ جنت کےکھانےانسانی وجودمیںکثافت کی پیدائش کاسبب نہیں بنتے تھے،احادیث میں جنتی کھانوںکےہاضمہ کی جو کیفیت بیان کی گئی ہے کہ کھانےکےبعد ان کی تحلیل ایک خوشبودار ڈکار کی صورت میں ہوگی یعنی فضلات بننےکاعمل نہیںہوگا(مسلم ،کتاب الجنۃرقم ۲۸۳۵ ص۱۵۲۰)
ولن تجد لسنت اللہ تبدیلا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر ایک بچہ پیدا ہوتا ہے فطرت پر (یعنی اس عہد پر جو روحوں سے لیا گیا تھایا اس سعادت اورشقاوت پرجو خاتمہ میں ہونے والی ہےیااسلام پریااسلام کی قابلیت پر) پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی بناتےہیںاور نصرانی بناتے ہیںاورمجوسی بناتےہیںجیسے جانورچارپاؤں والاوہ ہمیشہ سالم جانور جنتا ہے کسی کو تم دیکھتے ہو کان کٹا ہواپیدا ہوا“پھر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے تمہارا جی چاہے تو اس کو آیت پڑھو «فِطْرَةَ اللهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لاَ تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّه» یعنی اللہ کی پیدائش جس پر بنایا لوگوں کو،اللہ کی پیدائش نہیں بدلتی۔
دنیا کی خاصیت ہے کہ اس میں دوام نہیں ہے،دنیامیں جو بھی آئے گا اسے مرنا پڑے گا۔مرتا وہی ہے جس کاوجودپراناہوجائے،زندگی اور جسمانی بقاء کےلئے ان اسباب کا ہونا ضروری ہےجن کی بنیاد پر جسم میں ہونے والی کمی کو دور کیا جاسکے۔ وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ  [الأنبياء/34] اور نہیں بنایا ہم نے کسی بشر کے لیے آپ سے پہلے ہمیشہ زندہ رہنا کیا پس اگر آپ فوت ہوجائیں پس یہ ہمیشہ زندہ رہنے والے
یعنی اس دنیا میں کوئی بشر ایسا نہیں بنایا گیا جو ہمیشہ زندہ رہے،اگر آپ مرجائیں گے تو کیا یہ ہمیشہ زندہ رہیں گے؟۔خرابی اس وقت آتی ہے جب جسمانی نظام ٹھیک انداز میں کام نہ کرے،جسمانی نظام کی خرابی کاسبب وہی اشیاء ہوتی ہیںجنہیں اگر ضرورت کےوقت استعمال کیاجائے توضرورت کوپورا کرکے تندرستی قائم رکھتی ہیںاوربغیر ضرورت کے استعمال کیاجائےیااستعمال حداعتدال سے تجاوز کرجائے تواس نقصان کوبیماری کہاجاتاہے۔بالفاظ دیگرہماری صحت کی خرابی کا سبب وہی اسباب ہیںجنہیںہم زندگی کی بقاءاوراپنی ضرورت کےلئے استعمال کرتے ہیں۔یعنی تخلیقی اندازمیں انسان ایک ایسے نظام کا حصہ ہے جس میں مقررہ مدت سے زائد رہنا اور گنی منی سانسوں سے زائد کچھ حاصل نہیں کرسکتا۔آخرت یا جنت کا معاملہ اس سے الگ حیثیت رکھتا ہے۔اس کی کیفیت ملاحظہ ہو۔
ابوسعید اور ابوہریرہ ؓکہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ” پکارنے والاپکار کرکہے گا:(جنت میں)تم ہمیشہ زندہ رہو گے کبھی مرو گے نہیں تم صحت مند رہوگے،کبھی بیمارنہ ہوگے،کبھی محتاج وحاجت مند نہ ہو گے اللہ تعالیٰ کے قول : « وتلك الجنۃ التي أورثتموہا بما كنتم تعملون » ” یہی وہ جنت ہےجس کے تم اپنے نیک اعمال کےبدلے وارث بنائے جاؤ گے “ (الزخرف : ۷۲)کایہی مطلب ہے سنن ترمذی، کتاب: تفسیر قرآن کریم باب:سورۃ الزمر سے بعض آیات کی تفسیر [سنن ترمذی]حدیث نمبر: 3246 - حکم البانی: صحيح.
مذکورہ بالاسطورسے نتیجہ نکلتاہے کہ امراض کثافت اورتعفن کانام ہیں ۔ مرض کے اسباب وہی غذائیںہیںجو کھائی جاتی ہیںانہی کی بے ترتیبی انسان کوبیماری میںمبتلاء کرتی ہے۔جوچیز غذائی بےاعتدالی سے بچاتی ہےاسےطب کہاجاتاہےطبوںمیںسردارطب،طب نبویﷺ ہے۔
طب اور اقوام عالم۔
طب انسانی معاشرہ کے لئے بنیادی ضرورت ہے جس سے کوئی بھی مفردوملک اور قوم مستثنی نہیں رہ سکتی۔ اعتقادیات اپنی جگہ پر اہمیت رکھتے ہیں لیکن جسمانی صحت و تندرستی کی اپنی دنیاہےجو کسی مذہب یاجسےکسی مسلک یامذہب سے منسلک نہیں کیاجاسکتا ہے،ہرکوئی فطری قوانین کامحتاج ہوتاہے،جو بھی ان قوانین کو پاما ل کرنے کی کوشش کرے گا وہ خودپامال ہوجائے گا۔
فطری قوانین سب کے لئے یکساں نافذ العمل ہیں،عالم ،جاہل،امیر غریب،مرد و عورت،بچے بوڑھے جو بھی قائم کردہفطری حدود کو پھلانگنے کی کوشش کرے گا اسے ضرور سزا ملے گی۔جرمانہ کے طورپر صحت میں کمی کردی جائے گی،امراض یک دم یایکبارگی میں حملہ آور نہیں ہوتے،بہت سے علامات یکے بعد دیگرے انسان کو متنبہ کرتے کے لئے ظاہر ہوتی ہیں،اگر انسان اس طرف توجہ مبذول کرلے توانحطاط صحت کو روکاجاسکتاہے،عمومی طورپرجب ساری قوتیں زائل ہوجائیں جسم کام کرناچھوڑدےاس وقت بیمار تصور کیا جاتا ہے حالانکہ مرض کی علامات پہلے سے شروع ہوجاتی ہیں۔
علم طب کی حقیقت
علم الطب پر یہ تحریر ہے بڑے لوگوں نے علم کی یہ تعریف کی ہے
 علم کسی چیز کی معرفت کا نام ہے،جو کہ جہالت کی ضد ہے،احوال بدن کاجاننااوراحوال بدن تین ہیں۔صحت،مرض،اوردرمیانی حالت۔ (عیون المسائل من اعیان الرسائل للحسینی23)
صحت اور مرض کی تعریف تو کسی نہ کسی حد تک ہرکوئی جانتایا سمجھا ہے،درمیانی حالت کیا ہے؟ یہی بنیادی نکتہ ہے جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے،انسان سمجھتا ہے وہ صحت مندہے جب کہ اہل علم اپنے تجربات کی بنیاد پر سمجھ لیتاہے کہ صحت بیماری میںڈھلتی جارہی ہے ، یہی بنیادی نکتہ ہے جہاں طبیب کاعلم و تجربہ انسانیت کی رہنمائی کے لئے موجود ہوتا ہے۔
اس جگہ امر ربی کی بحث نہیں کررہےہمارا دائرہ بحث وہ قوانین ہیں جن کے تحت زندگی گزاری جاتی ہے،اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے وہ پلک جھپکنے میں کو جو چاہے کرسکتاہے۔وَمَا أَمْرُنَا إِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْحٍ بِالْبَصَرِ [القمر/50] اور نہیں ہے ہمارا معاملہ مگر یکبارگی آنکھ جھپکنے کی مانند
قانون قدرت اور سنت اللہ میں فرق۔
خالق کائنات کا اختیار ہے وہ جو چاہے حکم دے اپنی کائنات میں جوچاہےتصرف کرےاس سے سوال نہیں کیا جاسکتا۔لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ [الأنبياء/23]
یہ اس کاحق قدرت ہےجسے کہیں بھی چیلنج نہیں کیاجاسکتا۔البتہ کائناتی معاملات قدرت یایکبارگی کے حکم سےنہیںچلائےجاتےاسے چلانے کے لئے کچھ قوانین بنادئے ہیں جنہیں ہر ایک پر لاگو کردیا گیا ہے ، ان کانفاذہر قوم وملت نیک وبدبڑے چھوٹےپرہوتا ہے،ان کانفاذ غیر محسوس طریقے سے ہوتاہے،مگر تنائج دواور دو چار والے جواب کی طرح مکمل ہوجاتا ہے،آگ جلاتی ہے،پانی ڈبوتا ہے،غذا سے خرچ ہونے والی توانائی بحال ہوتی ہے وغیرہ۔ہمیں جو ذمہ داری سونپی گئی ہے وہ قدرت کو پرکھنے کی نہیں بلکہ ان فطری قوانین کی پابندی اور عمل پیراہونے کی ہے،جو انہیں سمجھے گاوہ زیادہ صحت سے لطف اندوزہوسکے گا،جو ان قوانین کا لحاظ نہیں کرےگا وہ غیر محسوس طریقے سے صحت جیسے انمول نعمت سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔طب کہاں سے آئی اہل دنیا نے اسے کن ذرائع سے حاصل کیاانہیں کئی معتقیدات کی بنیاد پر تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
جو لوگ مذہب پے ایمان رکھتی ہیںان کا کہناہےیہ علم اللہ نے بطور وحی انسانیت کےلئے بطور تحفہ اتارا تاکہ بوقت ضرورت انسان اپنے دکھوںوتکالیف کامدواکرسکے۔اس موضوع پر لکھی ہوئی کتب میں واضح طورپر لکھا ہےیہ علوم ابنیاءسےہےان سےعلماءنےاخذ کرکے عوام کو فائدہ پہنچاتےہیں۔دوسراطریقہ یہ بھی کہ کچھ لوگ اس میدان میںاتریںاور تجربات کریں ان تجربات کی روشنی میں جو مفید نتائج سامنے آئیں انہیں فلاح انسانیت کےلئےوقف کردیں۔طب کسی ایک قوم یافرد کی جاگیر نہیںیہ تووہ شاہراہ ہے،جس پرہرقوم و تہذیب کو چلناپڑتا ہے ( البحار ج 62 ص 75.: عيون الانباء ص 13 فما بعدها والبحار ج 62 ص 75 وطب الامام الصادق ، حديث الاهليلجة ص 43 ـ )
طب ایک مشترکہ ورثہ ہےاس میںناموروہی قومیں ہوتی ہیں جو اپنے وسائل اور قیمتی وقت اس لئےوقف کرتی ہیں۔تاریخ میں جن قوموں کو پزیرائی ملی ہے،یہ وہی قومیںہیںجنہوںنےمیدان طب میں اپنےوسائل کووقت کووقف کیا،وہی اوراق تاریخ میںسینےچوڑا کئے امتیازی شان کےتخت پربراج مان ہیں۔سلطنتیںمٹ گئیں۔ سردار یاںخاک ہوئیں۔ہوئےناموربےنشان کیسےکیسے۔لیکن طب کامیدان وہ میدان ہے جس میں محنت کرنے والا ہر ایک کی آنکھ کا تارابن جاتاہے۔خدمت ایک ایساجذبہ ہے جس کی کشش کسی بھی قوم و ملت کو اپنے حصار میںلینے کی طاقت رکھتا ہے۔
جو بھی اس دنیا میں سانس لیتا ہے اس نے سانسیں برقرار رکھنے کے لئے غذا و خورک کھانی ہے جو کھائے گا وہ لامحالہ بیمار بھی ہوگا،کوئی کم ہوگاتوکوئی زیادہ۔ لیکن ہوگاضرور۔ جب بیمار ہوگاتوطبیب کی ضرورت محسوس کرے گا۔جو بھی اس کی ضرورت پورا کرے وہ اس کی آنکھ کا تاراٹہرے گا،مریض طبیب سےیاطبیب مریض سےسوائے مرض و شفاء کے کوئی سوال نہیں کرتے طبیب یا مریض کا کوئی بھی ملک و قوم ہو کسی بھی مذہب ومسلک سے تعلق رکھتاہو حتی کہ اگران کےاندر انسانی فطرت کی وجہ سے باہمی شکر رنجی بھی ہوتوجب مریض طبیب کا دروازہ بجاتاہےتوطبیب کودروازہ کھولناپڑتاہے۔اساتذہ کرام نےاطباء کے لئےجوقواعدمقررکئےہیںیاجوعہد وہ اپنےشاگردوںسے لیا کرتےتھےکا مطالعہ کرکے دیکھ لیں طبیب کبھی ذاتی سوچ،پسند نا پسند کی بنیادپر فیصلہ نہیں کرتا،جو راستہ وہ منتخب کرچکا ہے اس سے انحراف کرنا اس کے فن کی موت ہے۔جب طبیب اس بارہ میںاپنی انا کو گھیسڑتا ہے تووہ فن کے راستہ سے بھٹک جاتاہے۔اس سے فن کی چاشنی سلب کرلی جاتی ہے۔

 

Comments

Popular posts from this blog