میری طبی زندگی میں ادویہ سازی کی اہمیت۔.The importance of medicine in my medical life..أهمية الطب في حياتي الطبية.

 میری طبی زندگی میں ادویہ سازی کی اہمیت۔
The importance of medicine in my medical life.

أهمية الطب في حياتي الطبية.

أهمية الطب في حياتي الطبية.


میری طبی زندگی میں ادویہ سازی کی اہمیت۔


حررہ عبد فقیر۔حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ کاہنہ لاہور

زندگی کی مسافرت نے وہ سبق سکھائے جو دوران تعلیم اساتذہ نہ سکھا سکے۔حالات و واقعات انسان کے سب سے سے بڑے استاد ہیں بھوک تنگ دستی غربت وسائل کی عدم فراہمی انسان کو وہ سبق سکھاتے ہیں جو دنیا کی کسی درسگاہ میں نہیں سکھائے جاسکتے،میں نے اپنی جوانی کے بیس سال امتحانات کی نظر کردئے۔جو اوقات انسان عیش و آرام میں بستر کرتا ہے زندگی انجوائے کرتا ہے،یہ سنہرے سال تندستی۔ عسرت اورخوف کے عالم میں گزرے۔اللہ کا لاکھ لاکھ بار شکر ادا کرتا ہوں کہ ان گھڑیوں میں بھی میرے ہاتھ سے کتاب و قلم نہ چھوٹے جب زیادہ پریشان ہوتا تھا تو کتاب کھول لیتا کچھ دیر کے بعد فکر و رنج کی گھٹا چھٹ جاتی۔اس دوران ایسا بھی ہوا کہ سوتے میں بھی مضامین ذہن میں چھائے رہتے نیند کی خماری میں بھی انہیںکاغذ پر منتقل کررہتا۔انسان پر کیسے ہی حلاتا آجائیں شکر کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے،وہی پریشان خیالیاں آپ کتب کی شکل میں اطراف عالم میں پڑھی جارہی ہیں۔پیسے نہ ہونے کے برابر تھے ،صرف اسباب کے طورپر طب ایسا ہنر تھا جس راہ سے اللہ مجھے روزی دیتا تھا، آج یہ ہنر میری شناخت بن چکا ہے۔کوشش ہوتی کہ مریضوں سے جو پیسے ملیں ان سے اپنی واجبی ضروریات پوری کروں۔اس لئے نسخہ جات۔جڑی بوٹیوں پر تحقیق۔آس پاس پائی جانے والی عقاقیر پر توجہ کرتا ،تحقیق سے کام لیتا تاکہ جو پیسے پنساری کو دوں وہ بچ جائیں،یہ عسرت کی حالت میں پیدا ہونے والی سوچ میری انفرادیت بن گئی،الحمد اللہ تحدیث نعمت کے طورپر کہہ رہا ہوں آج مجھے اُجاڑ بیابانوں میں اگنے والی بوٹیوں سے لیکر سڑک کنارے زبائیشی پودوں تک۔پیروں تلے روندھی جانے والی خش و خاشاک۔ندی نالوں اور نمناک مقامات پر اُگنے والی طرح طرح کی بوٹیاں۔فضلوں سے اکھاڑکر پھینکی جانے والی بوٹیاں، میرے لئے خزینہ ہیں۔موسمی پھل۔پھول۔درختوں کے پتے۔کچی حالت میں گرنے والے پھل اور پھول۔بےکار سمجھی جانے والی شاخیں مجھے پنساری کے بھاری بھرکم اخرجات سے بچاتے ہیں۔

میرا ادویاتی ماخذ

میری پاس جس قسم بھی مریض آئےتشخیص کے بعد روزہ مرہ کھائی جانے والی سبزیاں،پھل،ان کے چھلکے،ان کے بیج،میرے لئے پنساری کی دوکان ثابت ہوتے ہیں،شور زمین سے کوئی بھی پسند نہیں کرتا میرے لئے اس میں روزی پوشیدہ ہوتی ہے۔ہر نیا پودا مجھے دعوت دیتا ہے کہ میں اس کے طبی خواص معلوم کروں،اس سے کام لوں،دکھی انسانیت کو اس کے فوائد ظاہر کروں،میری نگاہ ،میری لمس،میری قوت شحمہ ۔اور قوت ذائقہ الگ سے راہیں دکھاتی ہیں،آج مجھے پنساری کی حاجب بہت کم محسوس ہوتی ہے۔

جب سے میں نے طب کو بطور ہنر اختیار کیا ہے مہنگی دوائیں خریدیں،نایاب اجزاء آزمائے۔تجربات سے ثابت ہوانایاب اور مہنگی اشیاء جو فوائد رکھتی ہیں ایک باشعور طبیب وہی کام عام دستیاب سستی ترین اشیاء سے بھی لے سکتا ہے۔لیکن طبیب کو اپنے ہنر و فن پر اعتماد ہونا چاہئے،اپنے کام میںمہارت ہونی چاہئے،سوچیں ایک چیز تازہ بتازہ اپنے ہاتھ توڑے۔کہاں پنساری کے ڈبے میں پڑی ہوئی چیز یں،جس میں ایک حصہ چوہے کی مینگنیاں بھی شامل ہوں،برابر ہوسکتے ہیں؟

جڑی بوٹیوں کے عنوان سے لکھی جانے والی کتب میں صراحت موجود ہے کہ ایک چیز اس وقت تک کام دیتی ہے جب تک اس کی دوبارہ فصل تیار نہ ہوجائے،پنساریوں کے ہاں تو بہت سی ادویات کرم خوردہ،بوسیدہ متغیر الون ہوتی ہیں، ان سے تیر بہدف فوائد کی توقع رکھنا سراب میں پانی تلاش کرنا ہے۔

ہر علاقے کے اطباء اس فارمولے سے کام لے سکتے ہیں،مثلاََ،ہمارے لاہور کے گردو نواح میں۔دیسی کیکر،شیشم، شہتوت، آم، جامن ۔ امرود، فالسہ،سٹابری ،لیچی۔ خربوزہ ۔ تربوز ۔سرس،بھنگ۔قلفہ،کھیرا،کدو ،توری،بھنڈی وغیرہ وغیرہ بہت سی اشیاء پائی جاتی ہیں ان میں ہر مزاج اور ہر قسم کے ذائقہ رنگ و الوان موجود ہیں،اسی طرح سرحدی علاقوں میں چیل،پڑتل،سیب،انناس،خوبانی اور سندھ بلوچستان والوں کے لئے کیلا۔کھجور،جو ،باجرہ، مکئی وغیرہ بے شمار اشیاء ہیں،اگر ان پر غور کریں

گے تو آپ کو پنساری کی حاجت نہیں ہوگی،مشاہدہ بتاتا ہے کہ جس علاقے میںجو خوراک کھائی جائے اور بے اعتدالی کی وجہ سے جو امراض پیدا ہوں ان امراض کا علاج اسی علاقے کی خش و خاشاک میں موجود ہوتا ہے۔جس کھیت میں جو اناج اگایا جاتا ہے اس کے ساتھ اگنے والی بوٹیاں پیدا ہونے والے امراض کے لئے تریاقی صفات رکھتی ہیں ۔

قدرت کی فیاضی ہے اس نے ہر چیز ہماری دہلیز پر پہنچادی ہے لیکن ہماری کم علمی و بے توجہی اس سے استفادہ کے قابل نہیں رہنے دیتی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہر مرض کی ضروریات مقامی طورپر پوری ہوسکتی ہیں لیکن نوے فیصد ایسا ہوسکتا ہے۔کوشش کرنے والوں کو تو سمندر بھی راستہ دے دیتا ہے، کاہل و سست کو سامنے راستے میں آسمان بھی زمین سے لگا ہوا محسوس ہوتاہے۔

ایک نئی جہت۔

میدان طب میں ادویہ سازی بہت بڑا ہنر ہے اور میں اس قدر باریکیاں ہیں کہ جنہیں سمجھنے کے لئے دقت نظر چاہئے،ایک ایک لفظ اور اصطلاح اپنے اپنے الگ سے معنی ثیز ہوتے ہیں۔ادویہ سازی میں مریض کی ضرورت کےمطابق کبھی دوا  پیس کر دی جاتی ہے تو کبھی گولی بنا کر،کبھی خیساندہ بنایا جاتا ہے تو کبھی جوشاندہ تجویز کیا جاتا ہے۔تیل دار اجناس کے تیل بطور دوا کام میں لائے جاتے ہیں۔ماہرین مختلف اجناس کو ملاکران کا تیل نکالتے ہیں یا کوہلے سے نکلواتے ہیں ۔جیسے تارا میرا،خشخاش،بادام،مال کنگنی۔کھوپرا۔سرسوں ،رائی۔وغیرہ بہت سے چیزیں ہیں۔عمومی طورپر سمجھا جاتا ہے کہ جوشاندہ یا خیساندہ میں استعمال کی گئی ادویہ بےکار و ناکارہ ہوجاتی ہیں جبکہ ان ادویہ کا محض ایک جزو پانی میں حل ہوتا باقی دوا ئیں جوں کی توں باقی رہتی ہیں۔انہیں ضائع کردیا جاتا ہے۔طب میں اس مسئلہ پر کبھی کسی نے بات نہیں کی ،اگر یہ بحث کسی جگہ موجود ہے تو میرے مطالعہ میں نہیں آئی۔

اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ پھوک کی صورت میں ضائع کی جانے والی ادویات ہر وقت کم قیمت میں دستیاب ہوتی ہیں ،ان کاضائع کرنا قابل توجہ نہیں ہوتا۔مثلاََ ملٹھی کا جوشاندہ ۔عناب کا قہوہ۔پودینہ،لونگ،دار چینی۔اجوائن و الائچی کا کاڑھا وغیرہ ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ قیمتی جڑی بوٹیاں کبھی اس طرح ضائع کی گئی ہوں۔قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ جوشنادہ ہا خیساندہ کے بعد ادویہ بے کار ہوجاتے ہیں؟یا ان میں ادویاتی اثرات موجود ہوتے ہیں؟

سابقہ سطور میں لکھا جاچکا ہے کہ عملی طب میں قیمتی اجزاءسے زیادہ کم قیمت اور ہمہ وقت دستیاب اشیاء کوشرف قبولیت رہا۔ان میں سے بھی وہ جڑی بوٹیاں جو تازہ حالت میں مفت دستیاب ہوتیں۔اس طریق انتخاب میں میرا کوئی مربی و استاد نہ تھا۔یا زندگی کے تلخ تجربات میرے رہبر تھے،سب سے برا رہنما  طبی کتب کا مطالعہ تھا۔بس یہی میرا اثاثہ تھا یہی میرا آسرا!۔۔

اس عسرت میں خیساندہ و جوشاندہ میں استعمال ہونے والی اشیاءمیری توجہ کا مرکز رہیں۔کبھی کوئی شربت بنانا ہونا اس میں استعمال ہونے والی ضری بوٹیوں پر تجربات نے مجھے ایک نئی جہت دی۔کہ ان باقیات خشک کرکے دوسری ادویات کی طرح مریضوں کو استعمال کرایا گیا تو ان کے اثرات میں کوئی کاص فرق محسوس نہیں۔جس طرح وہ ادویات کام کرتی تھیں جنہیں الگ سے پیس کر سفوف یا گولیاں بناکر استعمال کرائی جاتیں۔فائدہ دیتی تھیں۔انکے فوائد کسی طرح ان سے کم نہ تھیں۔

تجربات ایک پہلو یہ بھی ہے۔

 یادش بخیر !
طبی زندگی میں دوباتیں میری رہنما رہیں (1)پرانی و نایاب طبی کتب کا مطالعہ۔بیاضیں۔قلمی نسخے۔گھریلو خواتین اور بڑی بوڑھیوں سے سنے ہوئے تجربات۔دیسی ٹوٹکے وغیرہ۔
(2)میدان عمل میں اترنے کے بعد ماہرین طب کہنہ مشق اطباء کرام،مقامی طورپر علاج و معالجہ سے وابسطہ لوگ۔گو ان کے پاس ڈگریاں /ڈپلومے نہیں تھے لیکن زندگی کے قیمتی تجربات تھے جوکسی بھی سند یا ڈپلومےکا محتاج نہیں تھے ۔یہ لوگ یکسوئی کے ساتھ خلق خلق میں مصروف عمل تھے اور اپنی روزی روٹی کا اسی طریقہ سے بندوبست کرتے تھے۔جب کبھی لہر میں آجاتے تو فیاجانہ نسخے نچھاور کرتے ،بطور احسان کچھ نہ کچھ دیدیا کرتے تھے۔یہ طریقہ مجھے بہت راس آیا۔اس راہ سے میرے اندر طب میں پختگی آتی گئی ،ان تجربات میں مفردات۔مرکبات ۔م اجزاء۔زیادہ اجزاء والے ہر قسم کے نسخہ جات تھے۔کچھ تو یک جزنسخہ جات نے وہ کام دکھایاکہ ہتھیلی پر سرسوں جمادی۔طبیب و مریض دونوں کے لئے حیرت انگیز ثابت ہوئے۔مثلاََ خونی پیچس والے لوگ بہت اذیت میں مبتلاء ہوتے ہیں۔ہمارے گائوں میں ایک عورت کوخونی پیچس لگے ۔خاوند بےچارے نے ہر ممکن علاج و معالجہ کرایا۔جہاں کسی نے بتایا وہ چلا گیا ،ہسپتالوں میں کئی ہفتے چکر لگائے۔مقامی حکیموں وطبیوں کے در پے پہنچے،پیچس نہ رکے ایک راہ گیر نے دکھ بھری کہانی سنی حقے کا کش لیا۔اور راز دارانہ انداز میں کہا۔ اسے ایک چمچ تارا میرا چبادو اوپر سے کچی لسی پلادو۔گھر والے کچھ بھی کرنے پر آمادہ تھے۔فورا تارا میرا منگوایا اور مریضہ کو ایک چمچ چباکر کھلا دیا ۔ابھی وہ صاحب حقے کی کشیں لگارہے تھے کہ مریضہ نے کہا مجھے افاقہ محسوس ہورہا ہے۔مسافر اور بھی توجہ کے قابل ٹہرا۔۔اسے کھانا پانی کا کہا گیا ،یہ پیش کش بخوشی قبول کرلی گئی۔کھانے تیار ہوا مہمان کو کھلایا گیا۔اتنے عرصہ میں مریضہ نے بتایا کہ اس وقت خون بند ہوچکا ہے۔تکلیف میں سکون ہے۔میں سونا چاہتی ہوں۔اس کے بعد تارا میرا ۔ہماری آنکھون کا تارا بنا ۔آج تک خونی پیچس،بواسیر۔نکسیر وغیرہ کے ان گنت مریضوں کو استعمال کراکے دعائیں لے چکا ہوں۔

حررہ عبد فقیر۔حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ کاہنہ لاہور




Comments

Popular posts from this blog