دوائے مستعملہ کا استعمال پانچویں قسط ادویات میں نعم البدل کا مسئلہ
دوائے مستعملہ کا استعمال
پانچویں قسط
ادویات میں نعم البدل کا مسئلہ
دوائے مستعملہ کا استعمال
پانچویں قسط
ادویات میں نعم البدل کا مسئلہ
حررہ عبد فقیر۔حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ کاہنہ لاہور
نعم البدل کا معاملہ۔
دیسی ادویات میں کچھ ادویات کو ایک دوسری کا نعم البدل قرار دیا جاتا ہے۔جب کہ کارخانہ قدرت میں جو چیز بھی تخلیق ہوئی وہ اپنے خواص کےلحاظ سے مکمل ہے،کوئی چیز دوسری کا نعم البدل نہیں ہوسکتی۔التبہ ضروریات کے پیش نظر یوںکہا جاسکتا ہے کہ ہماری ضرور ت کی کفایت کے لئے فلاں فلاں چیز بہتر رہے گی۔یعنی قدرتی طورپر اشیاء کی فراوانی کی نسبت سے ہماری طبی ضروریات بہت سی چیزوں سے پوری ہوسکتی ہیں۔اگر کوئی یہ کہے کہ فلان چیزدوسری کی نعم البدل ہے۔تو کچھ زیادتی والی بات ہوگی۔اس کی مثال کھانے پینے کی اشیاء سے دی جاسکتی ہے کہ بھوک میں انسان کے پاس بہت گنجائش ہوتی ہے کہ وہ کچھ بھی حلال چیز یںکھاکر پیٹ بھر سکتا ہے اپنی غذائی ضروریات پوری کرسکتا ہے۔چاول ،گندم،باجرہ،مکئی۔وغیرہ کسی چیز سے بھی اپنا پیٹ بھر سکتا ہے۔ایسے میں اگر کوئی کہے کہ یہ ایک دوسری کا نعم البدل ہیں،تو اس لحاظ سے ٹھیک ہے کہ بھوک مٹانے اور غذائی ضروریات پورے کرنے کی وجہ سے انہیں ایک دوسری جنس کا نعم البدل قرار دیا جاسکتا ہے۔اگر طبی خواص کے لحاظ سے انہیںایک دوسری جنس کا نعم البدل قرار دیں تو بات جچتی نہیں ہے۔انسانی معلومات کتنی بھی زیادہ ہوجائیں ایک حد سے آگے نہیں بڑھ سکتین،طبی تاریخ میں ایسے بہت سے واقعات موجود ہیں کہ ایک وقت میں ایک چیز کو غیر معمولی طورپرشہرت رہی اسے ہر مصیبت کا حل سمجھا جاتا رہا جب انسانی معلومات آگے بڑھیں تو معلوم ہوا کہ یہ معلومات غلط تھیں۔مثلاََ کافور کا انجیکشن ،کہتے ہیں اس کی اتنی شہرت تھی کہ غالبا فرانس میں شاید ہی کوئی مرنے والا ایسا ہوتا تھا جسے مرنے سے پہلےکافور کا ٹیکہ نہ لگایا جاتا ہو۔کیونکہ ان کے نزدیک کافور جام حیات کا نعم البدل تھا۔۔
معالج دوا،اور خواص دوا۔
کسی کو دوا کو استعمال کرنے سے پہلے اس کے خواص اور استعمالات کے بارہ میں معلومات ہونا بہت ضروری ہیں ،دیسی طریق علاج میں خواص کا معلوم ہونا بہت بڑا ہنر ہے۔کچھ لوگ کسی چیز کے خواص جانتے ہیں وہ بوقت ضرورت بتاتے ہیں کہ فلاں مرض /ضرورت کے لئے فلاں چیز فائدہ مند ہے،اس قسم کی بہت سی مثالین ملتی ہیں کہ کسی کو تکلیف ہوئی اسے بتایا گیا کہ فلاں چیز کھائو یا لگائو تکلیف دور ہوجائے گی۔،راقم الحروف کے بارہ میں لوگوں کا یہ تاثی پایا جاتا ہے کہ اگر کسی مرض کے علاج معلوم کروگے تو یہ کوئی نہ کوئی کھانے والی چیز تجویز کردیگا۔زیادہ مواقع ایسے ہوتے ہیں جن میں ان ٹوٹکوں کی وجہ سے مریض کو بہترین فائدہ ملتا ہے۔ایک دھنیا کو لیں جسے دوا تو کیا ٹھیک طریقے سے غذائی ذائقے کے طورپر بھی نہیں پہچانتے۔رواجی طورپر اسے ہنڈیا میں ڈالتے ہیں کہ اس کھانے کا ذائقہ بہتر ہوجاتا ہے۔دور دراز رہنے والے لوگ فون کرکے پوچھتے ہیں کہ جناب پیچس اور مروڑ لھے ہوئے ہیں کیا کرنا چاہئے میں انہیں بے دھڑک بتاتاہوں کہ ایک چمچ خشک دھنیا چباکر کھالو یا اس کا سفوف استعمال کرلو۔اوپر سے تازہ پانی دودھ۔لسی۔جو بھی ملے پی لو ۔انہیں فائدہ ہوتا ہے۔اسی طرح ہائی بلڈ پریشر کے مریج پوچھتے ہیں کہ ا سکا کوئی علاج ہے؟ انہیں بتایا جاتا ہے کہ ایک چمچ خشک دھنئے کی کھالیں۔گرمی سے ہونے والے بلڈ پریشر میں بہت زیادہ مفید و کاآرمد نسخہ ہے۔۔اسی طرح پیشاب کے پیلا پن اور جلن والے اس کا حل پوچھتے ہیں انہیں یہی نسخہ تجویز کیا جاتا ہے کہ دھنیا چبالو یا تازہ دھنیا مل جائے کہ تو اس کی پتیاں چباکر کھالو/جوس بناکر پی لو ۔
اگر دائیں طرف درد یا تکلیف ہوجائے تو بھی دھنیا تجویز کرتا ہوں۔کسی کو نیند نہ آنے کا مسئلہ در پیش ہو جوکہ عمومی طورپر ہائی بلڈ پریشر/فشار الدم کی وجہ سے ہوتا ہے دھنیا پھانکنے کا کہا جاتا ہے سکون کی نیند آتی ہے،تجربات بتاتے ہیں کہ دھنیا میں پوٹاشیم برمائیڈ والے کواص فطری انداز میں موجود ہوتےہیں جو مریض کو فطری انداز میں راحت پہنچاتے ہیں۔کچھ لوگوں نے گرمی پیشاب کا جلن کے ساتھ قطروں کی صورت میں آنے کی شکایت کی تو انہیں دھنیا کا سفوف ٹھنڈے پانی سے کھلانے سےے تکلیف دور ہوگئی۔اگر ذائقہ بدلنے کے لئے دیسی شکر برابر وزن میں ملادی جائے تو سونے پے سہاگہ ہے۔
یہ تو ایک دھنیا کی بات ہوئی جو ہر گھر میں موجود اور معمولی سی کریانہ کی دوکان سے بھی ملنے والی چیز ہے۔جو کسی تعارف کا محتاج نہیں،بچہ بڑا کوئی اسے جانتا بھی ہے اسے استعمال بھی کرتا ہے، کسی بھی وقت کہیں سے بھی مل سکتا ہے۔آپ الائچی۔لونگ،دار چینی۔زیرہ سفید۔دودھ۔شکر گڑ وغیرہ بے شمار اشیاء ایسی ہیں جو کہیںسے بھی دستیاب ہوسکتی ہیں،اگر معالج ان کے خواص و طبی فوائد کے بارہ میںجانتا ہوگا تو اسے کسی پنساری کی ضرورت نہیں رہے گی۔
Comments
Post a Comment