اسلام میں حلال و حرام کا فلسفہ اور انسانی صحت طب نبویﷺ کی روشنی میںفلسفة الحلال والحرام في الإسلام وصحة الإنسان في ضوء الطب النبوي.The philosophy of halal and haraam in Islam and human health In the light of the Prophet's medicine.

اسلام میں حلال و حرام کا فلسفہ اور انسانی صحت
طب نبویﷺ کی روشنی میں

The philosophy of halal and haraam in Islam and human health
In the light of the Prophet's medicine

فلسفة الحلال والحرام في الإسلام وصحة الإنسان
في ضوء الطب النبوي

فلسفة الحلال والحرام في الإسلام وصحة الإنسان في ضوء الطب النبوي

 

اسلام میں حلال و حرام کا فلسفہ اور انسانی صحت
طب نبویﷺ کی روشنی میں
تحریر
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ
کاہنہ نولاہور

 اسلامی نظام صحت کی ابتداء
دراصل اسلامی نظام صحت کی ابتداء ماں کے پیٹ سے ہوتی ہے۔ اس دوران ماں باپ کی نیک خواہشات ،مثبت سوچ اور صالح بچے کے وراثتی سلسلہ(جینیٹک) پر اثرانداز ہوتی ہیں ۔ پیدائش کے بعد بچے کی تعلیم وتربیت کے بھی اس کی صحت پر ساری عمر کےلئے اثرات چھوڑتے ہیں مثلاََاگر ماں بچے کو اپنا دودھ پلاتی ہے، ماں باپ سے خوش وخرم ماحول د یتےہیں گندے ماحول سے بچاتے ہیں، مصنوعی اور مضر صحت کیمیکل والی خوراکیں نہیں کھلاتے اور اسلام کے حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق اس کی تربیت کرتے ہیں تو انشاءاللہ بیماریوں کے خلاف ان کی جسمانی اور روحانی قوت مدافعت بہت مضبوط ہوگی اور اپنی زندگی میں بہت کم بیمار ہونگے ۔ آج کل چونکہ ان باتوں کا خیال نہیں کیا جاتا اس لئے باوجودآرام وآسائش کے لوگوں کی صحت خراب رہتی ہے۔
اسلامی نظام تحت تعلیم بھی دیتا ہے صحت مندرنے کے لئے ہمیں بیماری سے جنگ کرنا آنا چاہئے۔ یعنی جب بیمار ہوں تو اس کے سامنے لیٹ نہیں جاناچاہئے۔ جو لوگ اپنی بیماری کو بہت اہمیت د یتے ہیں اپنی عزت افزائی کی وجہ سے وہ بھی انہیں نہیں چھوڑتی -  بیماری یک دم آتی ہے اور کوئی یک دم بیمار پڑتا ہے صحت مند انسان میں قوت مدافعت کا ایسا مربوط و منظم سسٹم موجود ہے جب تک وہ کام کرتا رہے بیماری قریب نہیں آتی،جب یہ سسٹم کام کرنا چھوڑ دے تو صحت بگڑنا شروع ہوجاتی ہے۔جب صحت کو خطرات لاحق ہوتے ہیں تو انسانی جسم کا حفاظتی نطام آگاہ کرتا ہے اگر بروقت تدارک کرلیا جائے تو بڑی بیماری یا کسی بڑے ھادثہ سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔جو لوگ کہتے ہیں کہ فلاں اچانک بیمار ہوگیا۔یا فلاض پر اچانک بیماری نے حملہ کردیا۔ہرگز ایسا نہیں ہوسکتا،مرض کے حملہ آور ہونے سے پہلے مختلف علامات ظاہر ہوتی ہیں اگر توجہ دی جا ئے علامات پر قابو پالیا جائے جسم میں جو کمی زیادتی یا عناصر کی ترتیب میں بے اعتدالی ہوئی کو سمجھ لیا جائے تو کسی بھی بڑے حادثے سے بچا جاسکتا ہے۔انسانی جسم کو خلاق العلیم نے اس انداز میں ترتیب دیا ہے کہ ہلکی پھلکی بیماری کو یا جسم میں ہونے والے غیر ضروری افعال کو ازخود ٹھیک کرتا رہتا ہے۔اگر جسم کو مناسب غذاو خوراک اور ماحول ملتا رہے تو تو موزی امراض سے بچنے کی بہت سی راہیں نکلتی رہتی ہیں۔
اسلامی نظام صحت دراصل فطری سائنس ہے جو اللہ تعالیٰ کے رسول خاتم النبیینﷺ نے انسانوں کو سکھائی ہے۔جدید اصلاحات میں اسے"نیچروتھراپی"(Nature Therapy)کہتے ہیں۔مغرب میں اس کے اوپر بڑے زور و شور سے کام ہورہا ہے۔افسوس کہ مسلمان اپنے اس ورثے کو بھی چھوڑ چکے ہیں۔انسان عجیب طبیعت کا مالک ہے اگر اسے کوئی چیز زیادہ مقدار میں دیدی جائے تو اس کی ناقدری شروع کردیتا ہے،کم ملے یا پھر اس نعمت کو سلب کرلیا جائے تو اسے حاصل کرنے میں ایڈی چوٹی کا زور لگادیتا ہے،یہی کچھ مسلمان اسلامی تعلیمات کے ساتھ کررہے ہیں جس خزانے کے نگہبان بنائے گئے تھے اسے غیر اہم سمجھا کیونکہ آج کے مسلمان نے اسلام کے لئے قربانیاں نہیں دین،یہ در بے بہا ماں کی گود میں مل گیا،اس کی قدر وہ لوگ کررہے ہیں جو اس قسم کے صحت مندانہ آفاقی نطام سے محروم ہیں انہیں ان باتوں پر دماغ سوزی کرنا پڑتی ہے جنہیں مسلمان ناقدری کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ،بلکہ اس طرف توجہ دینا بھی غیر اہم خیال کرتے ہیں۔جب صحت و تندرستی پر کو ئی نئی تحقیق سامنے آتی ہے،مسلمانوں پر پتہ چلتا ہے کہ یہ تحقیق تو اسلام کے کسی رکن یا کسی ہدایات سے تطابق رکھتی ہے تو اسے بطور تفاکر کے پیش کرتے ہیں دیکھو جی سائنس نے اسلام کے فلاں رکن کی یا فلاں بات کی تصدیق کردی ہے ،ہمیں یہ بات ڈیڑھ ہزار سال پہلے نبیﷺ نے بتادی تھی۔یہ بات بھی عمل کے لئے نہیں بلکہ اس بنا پر کی جاتی ہے ہم مسلمان ہیں۔ہمارے پاس اس قسم کا نظام موجود ہے افسوس کہ اس قسم کے مدعی لوگوں کو پھر بھی اسلامی تعلیمات کی طرف رجوع کرنے کی توفیق نہیں ملتی۔ اس لئے کہ ہمیں یہ باتیں ماں کی گود میں مل گئیں،کسی نے ان ک اہمیت بیان کی اور نہ کود کو توفیق ہوئی کہ ان تعلیمات صحت کو توجہ کرلی جائے۔اسلامی نظام صحت جسے طب نبوی کے عنوان س مدون و مرتب کردیا گیا ہے انمول و آفاقی نطام ہے ،دنیا کاکوئی بھی نظام اٹھاکر دیکھ لیں فطری انداز میں صحت کی حفاظت کا جو انداز طب نبویﷺ میں اپنایا گیا ہے وہ کسی نظام میں موجود نہیں ہے۔
صحت وبیماری کا قانون۔
انسان اس وقت بیمار ہوتا ہے جب وہ فطرت کی خلاف ورزی کرتا ہے۔بیماری ہی کیا ہر مصیبت اس قانون فطرت سے بغاوت کا انجام ہوتی
ہے۔اللہ تعالیٰ نے طب نبویﷺ کی شکل میں وہ فطری قوانین عطاء کئے ہیں،جنہیں تائید وحی حاصل ہے۔بحیثیت مسلمان ہمارا عقیدہ ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے بنیا ہے الایعلم من خلق وھو الطیف الکبیر۔بنانے والا اپنی بنائی ہوئی چیز کو بہتر انداز میں جانتا ہے کہ اس کی صحت و کارکردگی کے لئے کونسی چیز بہتر ہے اور کس چیز سے نقصان کا اندیشہ ہے۔اس لئے استعمال و ضرورت کی اشیاء کی ترتیب بتادی جاتی ہے کہ فلاں چیز صحت و کارکردگی کے لحاظ سے بہتر اور فلاں چیز نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔عام انسان کے سامنے وہ حکمتیں نہیں کھلتیں جو ایک دانا و حاذق کے سامنے ہوتی ہیں۔کچھ باتیں تجربہ کی بنیاد پر اچھی یا بری مشہور ہوجاتی ہیں اور کچھ تجربہ میں تو نہیں آتیں لیکن سیانے لوگوں کی ہدایات کی وجہ سے انہیں ترک کیا جاتا ہے یا ان کے فوائد بیان کرنے کی وجہ سے استعمال کیا جاتا ہے۔عام انسان کے سامنے وہ راز نہیں کھلتے جو اس کے ماہر کے سامنے کھلتے ہیں۔مثلاََ دوسر سے صاف پانی اور مٹی کا تیل یا پٹرول ملتےچلتے دکھائی دیتے ہیں،لیکن روزہ مرہ تجربات بتاتے ہیں کہ ان کا سیال پن جو کہ مشترک ہے پانی اور پٹرول میں کوئی پیاسا پانی کی جگہ پٹرول نہیں پیتا،یا گاڑی مین پٹرول کی جگہ پانی نہیں ڈالتا۔یہ تو روزہ مرہ کے  مشاہدات ہیں۔ایک جاہل و ناکواندہ بھی اس باریک فرق کو سمجھتا ہے۔اسی طرح حلال و حرام ،مباح و مکروہات ہیں جن کا اسلام نے پر حکت طریقے سے شعور دینے کی کوشش کی ہے۔
حلال و حرام کھانے میں خط امتیاز۔
عام لوگ حلال و حرام کے خط امتیاز کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔سچی بات تو یہ ہے کہ حلال و حرام سمجھنا تو دور کی بات ہم تو جب تک کسی چیز کے نقصان کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں یا کہیں سے زخم کھاکر گھائل نہ ہوجائیں تسلیم کرنے پر آمادگی ظاہر نہیں کرتے۔کچھ اشیاء نج کا نقصان ہر خاص و عام پر ظاہر ہوچکا ہے وہ سگریٹ ہے جس کے نقصان خود اس کی پیکنگ پر لکھے ہوتے ہیں کو بھی پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے ۔نقصانات اتنے واضح ہیں کہ میڈیاپر ان کی تشہیر کے باجود دنیا کا زیادہ چلنے والا کاروبار ہے۔جولوگ اس قدر عیاں بات کو سمجھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کیا وہ حلال و حرام کی تمییز کریں گے؟
حلال وحرام کا فرق وہ باریک نکتہ ہے جسے محسوس کرنے کے لئے عقل سلیم کا ہونا ضروری ہے۔حلال کمائو حلال کھائو۔اتنی سی با  ت سمجھنے کے لئے خدائی وجدان کی ضرورت ہے۔یہ ایک وہبی چیز ہے۔بچے کوقدرت جس انداز میں ماں کے پیٹ میں پالتی ہے اور اس کے لئے نشو و نما کا واحد ذریعہ ماں کے پیٹ میں ملنے والی غذا وخوراک ہے جس کا ایک  ہی راستہ  ہے وہ ہےماں کے پیٹ کا نظام پرورش۔جب تک ماںکے پیٹ میں پرورش پاتا ہے ہر قسم کی ملاوٹ سے پاک غذا ملتی ہے۔لیکن یہاں ایک خط امتیاز ہے کہ پاکیزہ حلال ہونی چاہئے۔ صفائی و نطافت کا اعلی انتظام ہونا چاہئے۔پھر اڑھائی سال دودھ پلائی کے زمانے میںمختلف احتیاطی تدابیر کے اختیاط کرنے کی ہدایات موجود ہیں۔والدین کی طرف سے ملنے والی غذاو خوراک،عادات و اطوار وہ سانچے ہیں جن میں ڈھل کر بچہ برا ہوکر معاشرہ کا کار آمد فرد بنتا ہے۔جو قومیں نونہالوں کی نشو ونما اورغذا و کوراک پر دھیان دیتی ہیں وہ اچھی نسل حاصل کرلیتی ہیں۔حلال و حرام کی تمییز انسانی اخلاق کے ساتھ ساتھ انسانی صحت پر بھی گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔جب حلال و حرام کاخط امتیاز مٹاکر صرف ظاہری غذایت یا دیگر طبی ضروریات  کو مدنطر رکھتے ہوئے غزا ترتیب دی جاتی ہے وہ کسی حد تک جسمانی ضرورت کو پوراکرتی ہے لیکن ذہنی و اخلاقی خلا پیدا کردیتی ہیں،یہی وہ خلاء ہے جسے طب جدید اور سائنسی ترقی بھی پُر نہیں کرسکی۔یہ خلیج روز بروز وسیع سے وسیع تر ہوتی جارہی ہے۔ماہرین سر جوڑے بیٹھے ہیں کہ اخلاقی و ذہنی بے راہوری سے کس سے نمٹا جائے۔یہ تو طب نبویﷺ ہے یا پھر آسان انداز مین اسلامی طریقہ ہے جس پر چل کر جہاں جسمانی صھت کا حصول ممکن ہے وہیں پر اخلاقی و ذہنی انارگی کا حل بھی موجود ہے


 

Comments

Popular posts from this blog