طب نبوی ﷺکی آفاقیت۔The universality of Prophetic medicine۔عالمية الطب النبوي

 طب نبوی ﷺکی آفاقیت

The universality of Prophetic medicine

عالمية الطب النبوي

عالمية الطب النبوي

طب نبوی ﷺکی آفاقیت
طب نبویﷺ جن خطوط پر استوار ہے وہ آفاقی قوانین ہیں،جو متفرق طور مختلف مقامات پر بیان کئے گئے ہیں۔ کوئی بھی طب اس وقت حرکت مین آتی ہے جب آدمی صحت جیسی نعمت سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔مگر طب نبوی ﷺ کا امتیاز ہے یہ انسانی صحت کو ہر صورت میں برقرا رکھنے پر زور دیتی ہے۔یعنی صحت کو بہتر انداز میں قائم رکھنے اور اس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کی ضرورت پر زور دیتی ہے.۔۔
 طب نبویﷺ پر جو تحریری مواد موجود ہے وہ کسی بھی طبی لٹریچر سے بڑھ کر مستند ہے۔جن لوگوں نے طب نبویﷺ کو اپنا میدان عمل قرار دیگر اس پر تحقیقات کیں انہوں نے قبل از مرض صحت کو برقرار رکھنے والے قوانین کو طب وقائی کے عنوان سے قلمبند کیا ہے۔اردو میں طب نبوی پر بہت کم کام ہوا ہے۔لے دیکر حجامہ وگیرہ کو طب نبویﷺ قرار دیکر اس سے کارباری ضرورت پوری کی جارہی ہے۔سب سے بڑا ماخذ امام ابن القیم الجوزیہ کی طب نبوی ﷺ جو کہ ان کی کتاب سیرۃ النبیﷺ پر لکھی ہوئی کتاب "ذادالمعاد"کا ایک حصہ ہے کل سرمایہ ہے۔جب کہ زمانہ کے بدلائو کی وجہ سے بہت سی نئی ضروریات نے جنم لیا ہے ،بہت سے امراج متروک ہوچکے ہیں ،ان گنت امراض نے جنم لے لیا ہے اس گہما گہمی کی دنیا میں ہر آن بدلائو جاری رہتا ہے ،اس جرورت کو پورا کرنے کے لئے اہل علم کی مستعد جماعت موجود ہونی چاہئے جو پیش آمدہ  طبی مسائل کو حل کرسکے۔
طب نبوی ﷺ بھی دین کا ایک شعبہ ہے جس انداز میں دینی ضروریا ت پوری کرنے کے لئے جگہ جگہ دار الافتاء موجود ہیں اسی انداز میں طبی ضروریات کے لئے طب نبویﷺ پر قائم سنٹر موجود ہونے چاہیئں تاکہ اہل اسلام کے ساتھ ساتھ دیگر اقوام کو بھی استفادہ کو پھر پور موقع فراہم کرسکیں ۔دین کی تکمیل تو اسی انداز میں ہوسکتی ہے کہ روحانی /دینی /مذہبی ضروریات کے ساتھ ہماری طبی ضروریات بھی علماء کے ہاتھوں پوری ہوں۔یہ کوئی تعلی یا تصنع نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ ہم نے دین کے بہت اہم اور ضروری پہلو کو پس پشت ڈال دیا ہے،اس غفلت پر عند اللہ و عند الناس ضرور پوچھ کی جائے گی۔  
طب یا علاج و معالجہ کا تصور ذہنوں پر اس قسم کا مرتسم ہوچکا ہے کہ جسے چند اناپ شناپ نسخے آتے ہوں اسے طبیب کا خطاب دیدیا جاتا ہے۔طب نسخہ جات کی معلومات کانام نہیں ہے بلکہ طب تو ان اصولوں کا نام ہے جن پر عمل پیرا ہوکر انسانی صحت کو قائم رکھتے ہوئے انسانی زندگی سے حقیقی طورپر لطف اندوز ہوسکتا ہے۔
جب سے دین اسلام مذہب میں تبدیل ہوا ہے الفاط کے تو وہی ہیں لیکن ان کے معانی و مفاہیم بدل گئے ہیں۔ہر کسی نے اپنے من پسند میدان عمل کو مکمل دین قرار دیدیا ہے اس خود ساختہ دائرہ کو مکمل دین قرار دیکر دین کا نام دیدیا ہے ،جو بھی اس دائرہ خود ساختہ سے باہر ہوگا وہ راندہ درگاہ ہوگا۔کیونکہ جنت اور خدا کی رضا کو اسی دائرہ میںمقید کردیا ہے۔جنت و دوخ کے فیصلے اسی محدود ذہنیت کے ساتھ کئے جائیں گے۔ہماری تربیت اسی انداز میں ہوئی اسی پر ہم نے نجات کو قیاس کیا جب کہ دنیا میں اس سے کہیں زیادہ وسعت موجود تھی۔
صحت کے لئےاسباب ستہ ضروریہ میں جن باتوں کا ذکر کیا گیا ہے ان پر غور فرمائے ۔(1)ہوا۔پانی۔(2)خوردو نوش(3)حرکت و سکون(4)خواب و بیداری(5)اعراض نفسانی(6)احتباس و استفراغ۔
آب و ہوا،روشنی۔دھوپ۔ماحول کی سردی گرمی،ماحول کا کثافت و آلودگی سے پاک ہونا۔وغیرہ قدرتی باتیں ہیں۔قران کریم کی کئی آیات اس بات کی نشان دہی کرتی ہیں کہ یہ چیزیں انسانی صحت کے لئے کس قدر ضروری ہیں۔
إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن مَّاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ (164)
بے شک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں، اور رات اور دن کے بدلنے میں، اور جہازوں میں جو دریا میں لوگوں کی نفع دینے والی چیزیں لے کر چلتے ہیں، اور اس پانی میں جسے اللہ نے آسمان سے نازل کیا ہے پھر اس سے مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے اور اس میں ہر قسم کے چلنے والے جانور پھیلاتا ہے، اور ہواؤں کے بدلنے میں، اور بادل میں جو آسمان اور زمین کے درمیان حکم کا تابع ہے، البتہ عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔
اسی قبیل کی دوسری آیات جن میں آب و ہوا پانی کی عمدگی اور دن رات کی مقررہ وقت پر آمد و رفت کیا یہ لایعنی و اتفاقی باتیں ہیں ؟ایسی بات ہرگز نہیں ہے۔یہ ایک منظم و مربوط نظام ہے جسے ایک عظیم ہستی اپنے ہاتھوں میں لئے ہوئے ہے۔آب و ہوا دونوں انسانی دسترس سے باہر کی چیزیں ہیں البتہ ان کی آلودگی کے ذمہ دار انسان ہیں۔پانی کی صفائی اور اس کا محتاط استعمال دین اسلام کی زریں ہدایات میں ہیں۔ایک عالم دین لکھتے ہیں "
پانی عظیم نعمت کی ناقدری
الله رب العزت نے انسانوں کو بے شمار نعمتیں عطا فرمائی ہیں، خود انسان سراپا نعمت ہے، ان نعمتوں کا احصاء اور شمار بھی ناممکن ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے ﴿وإن تعدوا نعمة الله لا تحصوھا﴾․(الآیة) مگر ان نعمتوں میں سے بہت سی نعمتیں ایسی ہیں جن کو عظیم نعمت کہا جاسکتا ہے، الله تبارک وتعالیٰ نے ان میں سے، بہت سی نعمتوں کو، بہت سے مواقع پر، ان کی اہمیت جتلانے کے لیے بطور احسان وامتنان یاد دلایا ہے، انہیں میں سے ایک عظیم نعمت ”پانی“ بھی ہے، قرآن کریم میں الله تبارک وتعالیٰ نے بہت سے مواقع پر بطور امتنان واحسان اس کو ذکر کیا ہے:﴿وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاء ِ مَاء ً طَہُوراً ، لِنُحْیِیَ بِہِ بَلْدَةً مَّیْْتاً وَنُسْقِیَہُ مِمَّا خَلَقْنَا أَنْعَاماً وَأَنَاسِیَّ کَثِیْراً﴾․(سورہٴ فرقان:49-48) بلکہ ایک جگہ تو فرمایا: تمام چیزوں کی حیات ہی پانی پر موقوف ہے﴿وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاء کُلَّ شَیْْء ٍ حَیٍّ أَفَلَا یُؤْمِنُونَ﴾․(سورہٴ انبیاء:30) اور حقیقت بھی یہ ہے کہ تمام مخلوقات چرند پرند، انسان وحیوان، نباتات کی حیات دنیوی پانی ہی پر منحصر ہے، یہی وجہ ہے کہ الله تبارک وتعالیٰ نے اسے سہل الحصول اور اس کو کسی کا مملوک نہیں بنایا، بلکہ تمام بندوں کو اس کے حاصل کرنے میں پوری طرح سے مختار بنایا، چناں چہ علامہ ظفر احمد عثمانی ؒنے اعلاء السنن میں پانی کے سلسلہ میں اسلامی تعلیمات کا جو خلاصہ پیش کیا ہے اس کی روشنی میں دنیا میں پائے جانے والے پانیوں کو چھ قسموں میں تقسیم کیا ہے اور ان چھ میں سے صرف ایک قسم کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ مملوک شمار ہو گا اور اس کا مالک دوسرے کو اس کے لینے سے منع کر سکتا ہے، بقیہ پانچ قسم کے پانیوں کو لینے سے کسی کو منع نہیں کیا جاسکتا۔
مگر اتنی سہل الحصول اور کثیر الوجودشے کے استعمال کو شریعت نے بالکل آزاد نہیں چھوڑا، بلکہ اس کے لیے حدود مقرر کیں، پانی کے استعمال کے بارے میں شرعی احکام کا جو خلاصہ ہے، وہ یہ ہے کہ : استعمال کرنے والاپانی کی مقدار پر نظر نہ کرے، بلکہ اپنی حاجت اور ضرورت کا خیال کرے، جتنے پانی میں اس کی ضرورت پوری ہو سکے صرف اسی پر اکتفا کرے، اس سے زیادہ اگر استعمال کرے گا تو یہ ”اسراف“(فضول خرچی) شمار ہو گا، چناں چہ روایت میں آتا ہے کہ ایک صحابی حضرت سعد رضی اللہ عنہ وضو فرمارہے تھے، جس میں ضرورت سے زیادہ پانی استعمال کر رہے تھے تو آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: یہ کیا اسراف ہے ؟ صحابیٴ رسولﷺ نے تعجب سے پوچھا، الله کے رسول! کیا وضو میں بھی اسراف ہے ؟ آپ نے فرمایا جی ہاں! چاہے تم بہتی ہوئی نہر ہی پرکیوں نہ ہو۔ (ابن ماجہ قدیمی، ص:34)
صاحب بذل المجہود نے لکھا ہے کہ ”وقد أجمعت الأمة علی کراھة الاسراف فی الطھور وضوءً أو کان غسلاً أو طہارة عن النجاسات وإن کان علی شط نھر“(1/61) یعنی امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ طہارت میں ضرورت سے زائد پانی استعمال کرنا مکروہ ہے، وضو ہو یا غسل ہو یا دوسری نجاستوں کو زائل کرنا ہو۔
خود رحمۃ للعالمین صلی الله علیہ وسلم کا پانی کے استعمال کا کیا معمول تھا، ملاحظہ ہو: ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم ایک مُد( تقریباً پون لیٹر) پانی سے وضو فرماتے تھے اور ایک صاع ( تقریباً ساڑھے تین لیٹر) پانی سے غسل فرماتے تھے ۔(ابن ماجہ قدیمی، ص:24)
لیکن آج اگر کہا جائے تو شاید مبالغہ نہ ہو کہ جتنا اسراف پانی میں ہو رہا ہے اتنا شاید کسی اور چیز میں نہیں ہو رہا ہے، جب پانی نلوں او رکنوؤں سے نکالنا پڑتا تھا تب بھی معاملہ بہت غنیمت تھا، مگر جب سے ترقی ہوئی اور الیکٹرانک دور شروع ہوا تب سے اس کا استعمال جس طرح بے دریغ ہونے لگا کہ الامان والحفیظ، پہلے جتنے پانی میں بآسانی غسل ہو جاتا تھا، اب اتنے پانی میں بمشکل وضو ہوتا ہے، جتنی مقدار پانی ایک متوسط گھرانہ کے لیے کافی ہوتا تھا اب اتنے پانی میں ایک دو کا گزارا مشکل ہو گیا ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ نہ کوئی روک ٹوک کرنے والا ہے اور نہ ہمیں اس کے نعمت ہونے کا احساس اور نہ یوم الحساب میں جواب دہی کا ڈر۔
لیکن یاد رہے کہ جب الله تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کی انتہائی ناقدری ہونے لگتی ہے تو الله تعالیٰ ان نعمتوں کو چھین لیتے ہیں، چناں چہ اگر آپ پورے عالم میں نظر ڈالیں گے تو اس وقت پوری دنیا پانی کے مسائل سے دو چار ہے، آپ نے اپنے ملک کے بعض علاقوں کا حال سنایا دیکھا ہو گا کہ وہاں پر پانی کا کال پڑا ہوا ہے، لوگ پانی کے لیے میلوں کا سفر کر رہے ہیں اور لمبی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں، گھنٹوں کے بعد جب نمبر آتا ہے تو بقدر ضرورت پانی بھی نہیں ملتا، زمینوں میں لگے ہوئے نل اور ٹیوب ویل فیل ہو رہے ہیں، ندیاں اور نہریں خشک ہوتی جارہی ہیں اور ہر علاقے میں پانی کی سطح روز بروز گھٹتی جارہی ہے، جس سے بہت سارے علاقوں میں ہا ہا کار مچی ہوئی ہے، بعض حضرات کا کہنا ہے کہ اگلی عالم گیر جنگ پانی کے مسئلہ پر ہو گی۔
جن لوگوں کے یہاں مذہبی طور پر ایسے حالات کے لیے کوئی ہدایات نہ ہوں تو شکوہ ان سے نہیں، مگر جس قوم کے یہاں زندگی کے تمام شعبوں، حتی کہ پانی کے متعلق بھی روشن ہدایات موجود ہوں اور ان کے مطابق زندگی نہ گزارنے میں روز قیامت جواب دہی بھی ہو پھر بھی کوئی ان ہدایات پر عمل نہ کرے تو گلہ ان سے ہے۔
ابن ماجہ کی حدیث ہے: ایک صحابی نے فرمایا کہ حضور پاک صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ وضو کے لیے ایک مُد اور غسل کے لیے ایک صاع پانی کافی ہے تو اس پر ایک صاحب نے فرمایا کہ ہمارے لیے تو کافی نہیں ہوتا؟! جواب میں صحابی رسول نے فرمایا ان کے لیے تو کافی ہو جاتا تھا جو تجھ سے زیادہ بہتر او رتجھ سے زیادہ بالوں والے تھے۔ (ابن ماجہ قدیمی:24)
مطلب یہ ہے کہ اگر تمہیں یہ خیال ہو کہ طہارت حاصل کرنے میں تم زیادہ حریص اور متقی ہو تو آپ صلی الله علیہ وسلم تم سے زیادہ حریص اور متقی تھے او راگر اپنے بالوں کی وجہ سے سمجھتے ہو کہ یہ ناکافی ہے تو آپ صلی الله علیہ وسلم تم سے زیادہ بالوں والے تھے۔
خلاصہ یہ ہے کہ عام حالات میں پانی کے بارے میں اسلامی تعلیمات یہ ہیں کہ پاک پانی کو حتی الامکان ناپاک اور ضائع ہونے سے بچایا جائے ، چناں چہ حدیث” لایبولن أحدکم فی الماء الراکد“یا حدیث ”عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ ان النبی ﷺ قال اذا استیقظ احدکم من نومہ فلا یغمس یدہ فی الاناء حتی یغسلھا ثلاثا فانہ لایدری این باتت یدہ (الف)(مسلم شریف، باب کراہیۃ غمس المتوضی و غیرہ یدہ المشکوک فی نجاستھا فی الاناء قبل غسلھا ثلاثا ص ۶۳۱ نمبر ۸۷۲/۳۴۶۔ ترمذی شریف، باب ماجاء اذا استیقظ احدکم من منامہ فلا تغمسن یدہ فی الاناء حتی تغسلھا ثلاثا ص ۳۱ نمبر ۴۲) میں اسی کی تاکید ہے اور اسی طرح کوئی ایسا طریقہ نہ اختیار کیا جائے جس کی وجہ سے دوسروں کے لیے اس کی قلت پیدا ہو جائے،بلکہ جتنی مقدار سے اپنی ضرورت پوری ہو جائے اتنی مقدار سے اپنی ضرورت پوری کر لی جائے۔
جب یہ تعلیمات عام حالات میں ہیں تو اگر حالات تنگی وقلت ،بلکہ سنگینی کے پیدا ہو جائیں تو ان ہدایات پر عمل کرنا کتنا ضروری ہو جائے گا ؟اس کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں، لہٰذا تمام انسانوں، خصوصاً مسلمانوں سے ہماری درد مندانہ اپیل ہے کہ وہ پانی کے معاملہ میں ہر جگہ اور ہرطور سے احتیاط سے کام لیں ،یہ نہ سوچیں کہ ہمارے یہاں تو کوئی کمی نہیں، کیوں کہ عالمی تناظر سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کب، کہاں، کیا حالات پیدا ہو جائیں، اس کا قبل از وقت اندازہ لگانا مشکل ہے ، وہ خلاق علیم وقدیرکب اور کس کی گرفت کر لیں ، کچھ کہا نہیں جاسکتا او رپھر ندامت اور احساس کا فائدہ کچھ نہیں ہوگا۔(الفاروق۔مفتی شعیب احمد بستوی)
مولانا احمد حسین قاسمی، معاون ناظم امارت شرعیہ، پٹنہ لکھتے ہیں:
اس دنیا میں ابنیاء کرام اور مصلحین و مفکرین کی ایک غیرمعمولی تعداد آئی، جنہوں نے اپنی تعلیمات و نظریات کی روشنی سے دنیا کو منور کرنے کی بھر پور سعی کی، ان میں ابنیاء کرام کی ایک ایسی منفرد اور پاکیزہ جماعت ہے، جو سب سے زیادہ خوبیوں کی مالک اور اعلیٰ و ارفع مقام ومنزلت کی حامل ہے، ابتدائے آفرینش سے آج تک انسانی دنیا کی تمام کامیابیاں اور حصولیابیاں براہ راست یا بالواسطہ انہیں حضرات کی رہین منت ہیں، خصوصاً نبوت و رسالت کے اس روحانی نظام کے سب سے بڑے آفتاب جس کی تابندگی و درخشندگی سے پوری کائنات انسانی بقعۂ نور بنی، وہ محسن انسانیت حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ آپ کی ذات بابرکات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع آفاقی تعلیمات انسانی عروج کا وسیلہ اور ارتقاء کا اولین زینہ ثابت ہوئیں، اگرانسان کے ارتقائی سفر اور اس کے آسمان پر کمنڈ ڈالنے کی تاریخ کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے، تو موجودہ ہمہ جہت ترقی کانقطۂ آغاز وحی ربانی ’’قرآن مجید‘‘ اور صاحب قرآن، سرچشمۂ ہدایت حضرت ’’محمد‘‘عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے، ساتویں صدی سے تہذیب و ارتقاء کا جو عالم گیر سلسلہ شروع ہوا اس کی روشنی گزشتہ صدیوں میں ایک پل کے لئے نہیں رکی، اس کے تسلسل نے انسانی معاشرت وتمدن کو مختلف جہتوں سے اور اس کے جملہ شعبہ ہائے حیات و ماحولیات کو مختلف عنوان سے دیکھتے دیکھتے منور کردیا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عالم انسانیت میں آپ کی ذات یکتا ہے جس نے از اول تاآخر سب سے عظیم اور جامع انقلاب برپا کیا ہے ، آپ کی تعلیمات ہمہ جہت اور متنوع ہیں، جن کی یہ پہلی خصوصیت ہے کہ وہ پوری انسانی زندگی کے جملہ گوشوں کا احاطہ کرتی ہیں، چنانچہ ماحولیات کے عنوان سے آپ کی سیرت کے اولین ماخذ کتاب اللہ نے آپ کی ربانی تعلیمات کو ماحولیات کے لئے مینارۂ نور قرار دیا ہے، ارشاد باری ہے’’فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ‘ کہ جب اس نور نے اپنے ماحول (آس پاس کی چیزوں) کو روشن کردیا (البقرہ: 17)
قرآن کی مذکورہ آیت میں ’’ماحول‘‘ کا لفظ صراحت کے ساتھ آیا ہے، ’’ماحولیات‘‘ اسی سے منسوب ہے، جس سے مراد ہمارے اردگرد کے عناصر حیات ہیں، جن پر ہماری زندگی کا دار و مدار ہے، فطری آب وہوا، زمین اور اس کے درختوں کا لامتناہی سلسلہ اور جنگلات جن سے زندگیاں آباد ہیںاور جنہوں نے زندگی کو توازن عطا کر رکھا ہے۔ خالق کائنات کا ارشا دہے: ’’وہی ذات ہے جس نے تمہارے فائدے کے لئے زمین کی ساری چیزیں پیدا کیں (بقرہ:29)
آپ کی تعلیمات کا اولین متن ’’قرآن‘‘ ہے جو آپ کی سیرت وتعلیمات کا پہلا ماخذ ہے،
اس میں مناظر قدرت اور ماحولیات کے تعلق سے تقریباً 700 (سات سو) سے زیادہ آیتیں ہیں، نمونہ کے طور پر چند آیات کا ترجمہ پیش ہے: اور (رب العالمین) نے زمین میں اس کے اوپر سے پہاڑ نصب کر دیئے اوراس زمین میں برکتیں رکھیں، نیز اس میں اس کی غذائیں (اسباب زندگی) ایک اندازۂ و قدر کے مطابق مقرر فرما دیں، چاردنوں میں یہ عام سوال کرنے والوں کے لئے (بطور جواب) یکساں ہے۔ (حم السجدہ 9-11)
دوسری جگہ ارشاد باری ہے: ’’وہی ذات ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو پائوں تلے مسخر کر دیا ہے، پس تم اس کے راستوں میں چلو پھرو اور اس کےر زق سے کھاؤ‘‘ (الملک:15) پہاڑ اور نہروں کے طویل و خوبصورت سلسلوں نے زمین کے توازن کو کس طرح قائم کر رکھا ہے اس کا ذکر قرآن کریم میں اس طرح آیاہے ’’اور اس (اللہ) نے زمین میں پہاڑ نصب کر دیئے تاکہ وہ تمہیں لے کر ڈگمگائے نہیں، دریا اور راستے بنائے تاکہ تم منزل مقصود تک پہنچ سکو‘‘ (النحل:15) ایک مقام پر یہی مضمون کچھ اس طرح ہے ’’وہی ذات ہے جس نے زمین کو وسعت بخشی ہے اور اسی نے اس زمین پر پہاڑوں اور نہروں کا نظام قائم کیا‘‘ (الرعد:3)
اس کرۂ ارض پر نظام زندگی اور ماحولیات سے متعلق قرآن کا ایک خوبصورت بیان اس طرح ہے: تسبیح بیان کیجیے اپنے اس اعلیٰ پالنہار کی جس نے (ہرچیز کی) تخلیق فرمائی، پھر اسے ٹھیک ٹھیک (متوازن) بنایا اور جس نے (ہرچیز کے لئے) ایک اندازہ وقدر متعین کیا پھر اسے راہ بتائی (الاعلیٰ:1-3)
قرآن کریم ماحولیات کے باب میں پاک وصاف آب وہوا کو حیاتیات اور زندگی کے جملہ تصورات کی بنیاد قرار دیتا ہے: ’’اور وہی ذات ہے جس نے اپنی رحمت سے ہوائیں، بھیجیں جو بارش کی خوشخبری لے کر آتی ہیں، اور ہم نے آسمان سے پاک وصاف پانی اتارا تاکہ ہم بے جان زمینوں کو زندگی عطا کریں اوراس سے اپنے پیدا کردہ چوپائے اور بے شمار انسانوں کو سیراب کریں‘‘ (الفرقان: 48-49) اور ہم نے ہر چیز کو پانی سے زندہ کر رکھا ہے کیا وہ منکرین ایمان نہیں لائیں گے۔ (الانبیاء: 30)
اسی طرح پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات نے ماحولیاتی تحفظ اور وسائل کے تحفظ کے مختلف پہلوؤں کا بالاستیعاب احاطہ کیا ہے،اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ماحولیاتی تحفظ اسلامی تعلیمات کا ایک اہم باب ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات نے ایک مومن پر ماحول کی حفاظت کے لئے زندگی کے اہم گوشوں میں متعدد فرائض عائد کر دیئے ہیں جو اسلامی نقطہ نظر سے جملہ قدرتی وسائل کے تحفظ سے متعلق ایک ایمان والے کے مثبت طرز عمل کی عکاسی کرتے ہیں، جن وسائل حیات کا استعمال ہم اس زمین پر کرتے ہیں،نبی آخرالزماںﷺ کی تعلیمات میں اس کا طریقہ استعمال اور انہیں برتنے کا انداز بڑے اعتدال و توازن اور کفایت شعاری کے ساتھ ملتاہے، چنانچہ پانی سے متعلق حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :”تم میں سے کوئی ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے“۔ (سنن ابن ماجة، کتاب الطھارة، باب النھي عن البول في الماء الراکد، رقم الحدیث:۳۴۴، ۱/ ۷۸،مکتبة المعارف، الریاض) تاکہ وہ پانی دوسروں کے لئے ناقابل استعمال نہ بن جائے، ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے زیادہ پانی خرچ کیا اس نے برا کیا اور ظلم کیا (سنن نسائی، مسنداحمد، ابن ماجہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی وضو میں ایک مد (625گرام) آدھا لیٹر سے کچھ زیادہ پانی استعمال فرماتے (ابوداؤد:92)
اسی طرح آپ نے پانی میں پیشاب کرنے سے سخت ممانعت فرمائی،اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیروکاروں پر پاکی و طہارت کے ذریعہ آب وہوا کی حفاظت لازم فرمائی ہے اور تمام منفی رویوں سے اجتناب کا حکم دیا ہے، لہذا آپ کی تعلیم ہے کہ اگرکسی علاقہ میں بیماری پھیل جائے توکوئی وہاں داخل نہ ہو اورنہ ہی وہاں سے کوئی شخص بیماری لے کر پاکیزہ اور صحت مند ماحول کا رخ کرے۔ (بخاری، مسلم)
ماحولیاتی آلودگی کا تدارک
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہر مدینہ کے لئے صحت بخش آب وہوا کی دعاء فرمائی ہے۔ اس کے ساتھ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے ماحولیاتی تحفظ کے لئے درخت لگانے اور اس کی کاشت کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ’’اگر کوئی درخت لگاتا ہے تو اس سے جوحصہ بھی انسان یا کوئی پرندہ یا کوئی جانور کھالے تو وہ اس کے لئے صدقہ کے مانند ہے‘‘ (بخاری) شجرکاری کی غیرمعمولی اہمیت کا اندازہ اس روایت سے بھی ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگرتم میں سے کسی کے ہاتھ میں کوئی پودا ہے اور قیامت قائم ہو جائے تب بھی وہ پودا ضرور لگائیں‘‘ (مسند احمد)
حضرت قاسم ؒ فرماتے ہیں کہ دمشق میں حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کے پاس سے ایک شخص گزرا۔ اس وقت حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کوئی پودا لگارہے تھے۔ اس شخص نے ابودرداء رضی اللہ عنہ سے کہا:کیا آپ بھی یہ (دنیاوی ) کام کررہے ہیں حالانکہ آپ تو رسول اللہ ﷺ کے صحابی ہیں۔ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے ملامت کرنے میں جلدی نہ کرو۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جو شخص پودا لگاتا ہے اور اس میں سے کوئی انسان یا اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے کوئی مخلوق کھاتی ہے تو وہ اس (پودا لگانے والے) کے لئے صدقہ ہوتا ہے۔ (مسند احمد)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا : جس آدمی نے بے آباد زمین کو آباد کیا اس کے آباد کر نے کی وجہ سے اسے ثواب ملے گا اور جس قدر اس میں سے جا نور اور پر ندے کھا جائیں وہ اس کے حق میں صدقہ ہے (نسائی)
 جنگلات کی اہمیت اور طب نبویﷺ کے احکامات
مؤطا امام مالک کی حدیث ہے :
  وحدثنی عن مالک ، عن یحیی بن سعید ، ان ابا بکر الصدیق بعث جیوشا ، فخرج یمشی مع یزید بن سفیان وقال : انی موصیک بعشر : لا تقتلن لا  امرأۃ و لا صبیا و لا کبیرا ھرما ، ولا تقطعن شجرا مثمرا ، ولا تخربن عامرا ، ولا تعرقن شاة ولا بعیرا الا لمآکله ولا تحرقن نخلا ولا تفرقنه ، ولا تغلل و لا تجبن . ( المؤطا للامام مالک ، کتاب الجہاد ، حدیث : ١٠ ، ص : ...دار احیاء التراث العربی ، بیروت )
ترجمہ : حضرتِ یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسلامی لشکر کو جنگ کے لیے ملک شام بھیجتے وقت کہا :  میں تم لوگوں کو دس چیزوں کی وصیت کرتا ہوں :
(١) کسی بچے کو قتل نہ کرنا۔ (٢) عورت کو قتل نہ کرنا (٣) کسی بوڑھے کو قتل نہ کرنا (٤) پھل دار درخت کو نہیں کاٹنا (٥) آباد شدہ مکان کو برباد مت کرنا  (٦) بکری اور اونٹ کے پیروں کو نہیں کاٹنا ، ہاں کھانے کے لیے ذبح کر سکتے ہو ۔ (٧) کھجور کے درختوں کو پانی میں نہ ڈبونا (٨) اور نہ ان کو جلانا ۔ (٩) امانت میں خیانت نہ کرنا ۔ (١٠)  اور میدان جنگ میں بزدلی نہ کرنا ۔
مذکورہ بالا روایت سے ظاہر ہے کہ اسلام جنگ کی حالت میں بھی پھل دار درختوں کو کاٹنے سے منع کرتا ہے اور جب جنگ کے دوران یہ احتیاط برتنے کا حکم ہے تو عام حالتوں میں کس قدر ان کی حفاظت کا حکم ہوگا ؟
اس موقع پر اردن کے مشہور عالم شیخ حسن تیسیر شموط حفظہ اللہ تعالیٰ نے ایک سوال کے جواب میں قدرے جذباتی انداز میں لکھا ہے :
فان حرم الاسلام قطع الاشجار فی الحرب ، فالاہتمام بھا ورعایتھا فی الاوقات العادیة واجب علی کل مسلم و مسلمة .یعنی جب اسلام نے حالت جنگ میں درختوں کو کاٹنے سے منع کیا ہے تو عالم حالتوں میں ان کی حفاظت اور دیکھ بھال تمام مسلمان مرد و عورت پر واجب ہے ۔
 یہاں یہ حقیقت پیش نظر رہے کہ شریعت اسلامی میں ضرورت کے تحت درختوں کو کاٹنے کی اجازت ہے ۔ بوجہِ ضرورت صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے درختوں کا کاٹنا ثابت ہے ۔ ہاں ! بلا وجہ اور بلا ضرورت درختوں کو کاٹنے اور ان کو نقصان پہنچانے کی شریعت میں ممانعت ہے ۔ چنانچہ مصنَّف عبد الرزاق اور مجمع الزوائد کی حدیث ہے کہ بیری کے درخت کاٹنے والے پر اللہ کی لعنت ہے ۔
لعن اللہ قاطع السدر . ( الف : مجمع الزوائد ،  ٤/ ٦٩ ، دارالکتاب العربی ، بیروت .... ب : مصنف عبد الرزاق ، ١١ / ١١ ، حديث : ١٩٧٥٧ ، المکتب الاسلامی ، بیروت )
مجمع الزوائد کے محشی نے اس حدیث کے تحت حاشیہ میں لکھا ہے :
قیل اراد به سدر مکة ، لانھا حرم وقیل : سدر المدینة ، نھی عن قطعه لیکون انسا او ظلا لمن یھاجر الیھا . وقیل : اراد السدر الذی یکون فی الفلاة یستظل بھا ابناء السبیل .( حاشیہ ممجع الزوائد ، ٤/ ٦٩)
یعنی کہا گیا ہے کہ اس حدیث میں مکہ شریف یا مدینہ منورہ کے بیری کے درخت کاٹنے کی نہی ہے ، کیوں کہ یہ دونوں حرم ہیں ۔ اس کے کاٹنے کی ممانعت اس لیے آئی ہے تاکہ انسان کو اس سے اُنس اور سایہ نصیب ہو اور ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے جنگل کا بیری کا درخت مراد ، جس کے سائے میں مسافر آرام کرتے ہیں ۔
حضرت عمرو بن عوس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میںنے قبیلۂ ثقیف کے ایک شخص کو بیری کے درخت کو اجاڑتے ہوئے دیکھا تو ان سے کہا کہ ایسا مت کرو ۔ کیوں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو بیری کے درخت کو ( بلا وجہ ) اکھاڑے ، اللہ تعالیٰ اس کے اوپر عذاب کی کھیتی کرے گا ۔ اس لیے میں بیری کے درخت کو اکھاڑنے کو ناپسند کرتا ہوں ، چاہے وہ کھیت میں ہو یا کسی اور جگہ ۔( مصنف عبد الرزاق ، ١١ / ١٢ ، حديث : ١٩٧٥٨ ، المکتب الاسلامی ، بیروت )
دوسری جانب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماحولیاتی استحکام کو یقینی بنانے کے لئے درخت اور جنگلات کی کٹائی سے روکا ہے، ارشاد ہے: ’’جو شخص اللہ کے جواز کے بغیر کوئی درخت کاٹتا ہے توہ عمل اسے دوزخ کی آگ میں بھیج دے گا‘‘ (ابودائود) چونکہ جنگلات کی کٹائی سے ہونے والی تباہی مٹی کے کٹاؤ کا سبب بنتی ہے اور متعدد حیاتیاتی تنوع کو ہلاک کرتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت جنگ میں بھی درختوں اور فصلوں کو تباہ کرنے سے منع فرمایا ہے، تاریخ اور روایات سے پتہ چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے جنوب میں ’’ہما‘‘ نامی ایک خوبصورت چراگاہ قائم فرمائی تھی اور اس کے چار میل کے فاصلے پر شکار کرنے اور دریا کے بارہ میل کے فاصلہ پر درختوں کو تباہ کرنے سے منع فرمایا تھا۔
اسلام میں حدود حرم میں کسی نباتاتی پودے اور کسی پرندے اور جانور کے شکار کرنے کی ممانعت بھی ماحولیاتی تحفظ کے لئے ایک اعلیٰ نمونہ ہے، وہ علاقے کسی مثالی خطے سے کم نہیں ہیں، مزید برآں یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی پرندے یا جانور کو ناحق اور بے فائدہ مارنے سے شدت کے ساتھ روکا ہے، اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کا انتظام فرمایا ہے۔ اگرماحولیات کو آج سب سے زیادہ نقصان پہنچ رہاہے تووہ وسائل فطرت کابےجا اورغیرمعتدل استعمال ہے، ہرچیز یہاں ایک اندازے کے مطابق ہے، اس کی کھپت میں بھی اعتدال وموزونیت کا لحاظ ضروری ہے، افراط وتفریط، فضول خرچی اور اشیاء کے بے جا استعمال نے ہمارے نظام ہائے زندگی اور ذرائع حیات کو تصور سے کہیں زیادہ ضرر پہنچایا ہے، لاکھوں برس کی قدیم زمین، قوت زندگی سے مالامال اس کا پرانا گہوارہ اور تروتازگی سے بھرپور اس کی پھیلی ہوئی تاحد آسمان فضاؤں کی پہنائی قدرتی وسائل حیات اور فطری اسباب زندگی کی ایسی مرقع ہے جہاں حکم خالق سے ہرآن زندگی اوراسباب زندگی کی تجدید ہوتی رہتی ہے، وہاں انسانوں کے روپ میں آنے جانے والے مسافر کو اگر طریقہ حیات اور وسائل زندگی کو صحیح برتنے کا سبق لینا ہو تووہ نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا بنظرعمیق مطالعہ کرے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ صدیوں پہلے اپنے پیروکاروں کو اسباب زندگی اور قدرتی وسائل کے استعمال کرنے کی تعلیم کتنے محتاط انداز میں ان کے تحفظ کا پورا خیال رکھتے ہوئے، فضول خرچی سے مکمل طور پر اجتناب اور کامل اعتدال کے ساتھ دی ہے، جو بالیقین ماحولیاتی تحفظ اور وسائل قدرت کے موزون ومعتدل استعمال کے لئے ایک ابدی اصول اور دستورکی حیثیت رکھتی ہے۔ چنانچہ ارشاد خداوندی ہے: وہی ہے جس نے تمہیں زمین کا جانشین بنایا، تاکہ وہ اپنی دی ہوئی نعمتوں (وسائل حیات) میں تمہاری آزمائش کرے (انعام:165) کھاؤ پیو (مگر) فضول خرچی مت کرو، بلاشبہ اللہ حد سے زیادہ خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا (اعراف:31) ایک جگہ قرآن میں آیا ہے کہ: فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی (کے مانند) ہیں۔( اسراء: 27)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ دنیا میں تم ایک اجنبی اورمسافر کی طرح رہو(بخاری:6416) یعنی جس طرح مسافر ریلوے اور ایرویز کے سامان کو اصول ہی کے تحت استعمال کرسکتا ہے، ضابطہ کے خلاف اس کے کسی نظام سے چھیڑ چھاڑ نہیں کرسکتا، انسان کو بھی اس زمین پر فطرت کے اصول سے متصادم کام کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔
مگرآج کے وقت میں موجودہ مختلف انواع و اقسام کے پلانٹس کی تنصیب نے اوزون کی پرت کو چھلنی کر دیا ہے، ان سے ہمہ وقت نکلنے والی فلک بوس آگ کی لہروں نے قدرتی فضا کی سطحوں کو بھیانک نقصانات پہنچائےہیں،اسی طرح اے سی، ریفریجریٹر (فریز) مشین وغیرہ کی کثرت استعمال، اور ان سے خارج ہونے والے مہلک گیس نے ہماری صاف ستھری فضائوں میں زہر گھول دیا ہے، درختوں میں تشویشناک کمی اور جنگلات کے عدم تحفظ نے ہواؤں سے صحت بخش اثرات ختم کر دیئے ہیں، دریاؤں کی سوکھتی ہوئی چھوٹی بڑی شاخیں ماحولیات کی بربادی کاماتم کر رہی ہیں۔
قصبات اور چھوٹے بڑے تمام شہروں کی سطح زمین سیمنٹیڈ اور پختہ ہوگئیں، نتیجۃً پانی کا لیئرنیچے جا رہا ہے اور نو آبادیات کی بست کشاد نے پہاڑوں کے طویل سلسلے کو زمین دوز کرکے فطرت اور توازن سے چھیڑ چھاڑ کیا ہے، کیمیکل کے پراگندہ نالوں نے غیرمعمولی طور پر نہروں اور دریاؤں کو آلودہ کیا ہے، مشینوں اور گاڑیوں سے نکلنے والے دھوؤں کی کثافت نے پاکیزہ ہواں کی لطافت کو حد درجہ متاثر کیا ہے، ماحولیاتی تحفظ کے عظیم علم بردار ممالک نے ایٹمی تنصیبات کے ذریعہ پوری عالمی برادری کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے، ایسے حالات میں محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ تعلیمات کو بروئے کار لاکر قدرتی وسائل کے استعمال میں اعتدال، زمین میں توازن اور ماحولیات کو تحفظ عطا کیا جاسکتا ہے اور وسائل فطرت سے مالامال دنیا کو گلوبل وارمنگ سے بچایا جاسکتا ہے۔




Comments

Popular posts from this blog