طب یونانی کی اہمیت پر حکیم محمد اجمل خاں صاحب کا اہم خطاب۔On the importance of Greek medicine Important speech of Hakim Muhammad Ajmal Khan۔

 طب یونانی کی اہمیت پر  حکیم محمد اجمل خاں صاحبؒ کا اہم خطاب

On the importance of Greek medicine
  Important speech of Hakim Muhammad Ajmal Khan

طب یونانی کی اہمیت پر  حکیم محمد اجمل خاں صاحب کا اہم خطاب

 
*طب یونانی کی اہمیت پر حکیم اجمل خاں صاحب کا اہم خطاب*
مسیح الملک حکیم اجمل خاں صاحب ہمارے ملک کے ایک عبقری شخص تھے۔طب و حکمت میں ان کا نام کسی پر مخفی نہیں۔ علمیت اور ذہانت ان کی گرانقدر تصانیف سے جھلکتی ہے۔ملی قیادت اور ملکی سیاست میں گاندھی جی، مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا محمد علی جوہر جیسی مقتدر شخصیات کے ہم پلہ تھے۔طب یونانی کی بقاء و ترقی کے لئے حکیم صاحب کی کوششیں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس ملک میں آج طب یونانی کے جتنے سرکاری ادارے تحقیق و تعلیم کے چل رہے ہیں ان ہی کی محنتوں کے ثمرات ہیں۔ان کی طبابت اور حذاقت سے خلق کثیر نے نفع اٹھایا۔ ماضی قریب میں بحیثیت حکیم ایسی شہرت و مقبولیت کسی کو حاصل نہ ہوسکی جو حکیم صاحب نے پائی تھی۔ انگریزی دور حکومت میں جب ایلوپیتھی کے ہندوستان میں داخل ہونے کے بعد دیسی طبوں بالخصوص یونانی طب کو حکومت نے ختم کرناچاہا اور عوام میں بھی ایلوپیتھی کے فوری اثرات کو دیکھ کر یونانی طب سے کچھ غفلت ہونے لگی اس وقت حکیم صاحب نے اپنے کئی خطبات میں اس طرف توجہ دلائی کہ ہماری صحت کی حفاظت میں طب یونانی کی کیا اہمیت ہے اور اس کو باقی رکھنا کیوں ضروری ہے۔خطبات اجمل نامی کتاب سے ایک اہم خطاب کا اقتباس یہاں نقل کیا جارہا ہے جو آج بھی اپنی افادیت کا احساس دلاتا ہے۔ دیسی طبوں اور طب یونانی کے بارے میں دلائل سے یہ ثابت کرنے کے بعد کہ یہ طریقہء علاج سائنس کے عین مطابق (یعنی سائنٹفک)ہے حکیم صاحب نے درج ذیل دس اہم نکات بیان کئے جو تھوڑی وضاحت کے ساتھ(جو قوسین میں درج ہیں) پیش خدمت ہیں۔
حکیم صاحب نے فرمایا کہ میں آپ کے سامنے وہ چند باتیں بیان کرنی چاہتاہوں جو ہم ہندوستانیوں کو اس بات کے لئے مجبور کرتی ہیں کہ ہم ان دیسی طبوں(بشمول یونانی طب)کو پوری کوشش کے ساتھ قائم رکھتے ہوئے ان کی ترقی میں برابر اپنی کوششوں کو مصروف رکھیں۔
(۱) یہ طبیں ہماری ہیں اورجس طرح انسان اپنی چیزوں سے فطری اور پیدائشی محبت رکھتا ہے اسی طرح ہم ان سے محبت رکھتے ہیں اور جہاں تک ہمارے امکان میں ہوگا ہم انھیں بربادی سے محفوظ رکھنے کی کوشش کریں گے۔ اگر ہم سچے طور پر اپنے وطن سے محبت رکھتے ہیں اور ہمیں اپنے دیس کی عادات، رسم و رواج، صنعت و حرفت اور وہ علو م جن پر ہمارے لاکھوں بزرگوں نے دماغ سوزیاں کیں بھلے معلوم ہوتے ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی طبوں کے ساتھ بھی محبت کریں اور ان کی ترقی میں جو اندرونی اور بیرونی رکاوٹیں ہوں انھیں دور کریں۔
(۲) مسلمان اپنی طب کو اگرچہ مذہبی نہیں سمجھتے لیکن وہ اسے اپنی قومی یادگار سمجھتے ہیں اور جس طرح اپنی قومی روایات کے ساتھ گہری سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں اسی طرح وہ اس طب اسلامی کے ساتھ بھی جس کا ماخذ طب یونانی ہے خصوصیت کے ساتھ وابستگی رکھتے ہیں۔
(۳) یہ دیسی طبیں قدیم ہے اور جہاں تک دواؤ ں کے متعلق تجربہ کا تعلق ہے ان کی قدامت (پرانا ہونا)جس طرح علاج کرنے والوں کے لئے باعث اطمینان ہوسکتی ہے اسی طرح اس ملک کی آبادی کے کامل بھروسہ کا سبب بھی ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج ہندوستان کی تقریباً اسی (۸۰) نوے (۹۰) فیصدی آبادی اسی دیسی طریقہء علاج کی گرویدہ ہے۔اگر اس طب میں خوبیاں نہ ہوتیں تو وہ ہرگز اتنی ہردلعزیز نہ ہوتی۔
(۴) ان دیسی طریقہء علاج میں بہت سی کہنہ (پرانی) بیماریوں کے زیادہ مفید علاج پائے جاتے ہیں جس کا اعتراف انصاف پسند (ایلوپیتھی)ڈاکٹر بارہا کرچکے ہیں۔اورجو روز مرہ کی کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے اس بات کے محتاج نہیں ہیں کہ ان کے بیان میں تفصیل سے کام لیا جائے۔
(۵)دیسی طبوں کی مفید دواؤں کا ذخیرہ مغربی طبوں سے بہت زیادہ ہے۔اس لئے اس ذخیرہ کو جو ہمارے بزرگوں کی صدہا سال کی محنتوں کا نتیجہ ہے محفوظ رکھنا ہمارے فرائض میں سے ہے۔
(۶)رات دن بیشمار تجربے اس قسم کے ہوتے رہتے ہیں کہ ایک بیمار ڈاکٹری اور یونانی سے تھک کر کسی وید کے پاس جاتاہے اور دوسرا ڈاکٹری اور ویدک سے مایوس ہوکر کسی یونانی طبیب کے پاس آتا ہے اور تیسرا ان دونوں سے فائدہ نہ حاصل کرکے ایک ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے اور ان بیماروں کو وید، طبیب اور ڈاکٹر سے فائدہ حاصل ہوتا ہے تو ملک کے فائدہ کے خیال سے ہمارا فرض ہونا چاہیے کہ ہم دیسی طبوں کو جو اس حالت میں بھی اپنے امتیاز کو قائم رکھے ہوئے ہیں برقرار رکھیں اور ان کی ترقی کے لئے کوششیں کریں ۔
(۷) دیسی علاج بہت سستا ہے اور ملک کی مالی حالت کے لحاظ سے اس کی آبادی کے لئے زیادہ موزوں اور مناسب ہی نہیں بلکہ ضروری ہے۔(یہ بات حکیم صاحب نے اس زمانے کے اعتبار سے کہی تھی ۔ یونانی طب میں آج جو مہنگائی نظر آتی ہے وہ کچھ تو جڑی بوٹیوں کی تجارت کرنے والوں کی من مانی قیمت طے کرنے کا نتیجہ ہے اور کچھ تو بعض مطب کرنے والوں کے ہر مرض کا مکمل علاج کرنے کے بے جادعوے اور بے حاشہ قیمت وصول کرنے کا۔و رنہ حکیم صاحب کی یہ بات حقیقت میں آج کے دور میں بھی درست ہے ۔)
(۸) جیسا کہ مشہور ہے اور بہت صحیح بھی ہے کہ ملک کی بیماریوں کے لئے اس کی آب و ہوا وہ تمام دوائیں مہیا کرتی ہے جو ان کے لئے زیادہ مناسب ہوتی ہیں ۔ اس لیے ہم ہندوستانیوں کے لئے یہاں کا علاج زیادہ موزوں اور مناسب ہوگا۔(بابائے طب بقراط کا قول منقول ہے کہ اپنے بیماروں کا علاج اپنے علاقے میں پیدا ہونے والی جڑی بوٹیوں سے کرو۔)
(۹) غیر ملکی طب کے رواج کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ ہندوستان جیسے مفلس ملک سے کروڑوں روپیہ ہر سال باہر جایا کرے گا ۔(یاد رہے کہ ہمارا ملک آج بھی ایلو پیتھی دواؤں کے لئے غیرملکی کمپنیوں پر زیادہ بھروسہ کرتا ہے اور ملکی کمپنیاں بھی خام مال کے لئے دوسرے ممالک پر منحصر ہیں) اس لیے ہمارا فرض یہ ہونا چاہیے کہ اپنے روپیہ کو جو طبی ضرورتوں پر خرچ کیا جائے اس طرح خرچ کریں کہ ہماری دولت
ہمارے ہی ملک میں رہے۔ ( یہ کہا جائے تو بھی درست ہوگا کہ اگر مسلمانوں سے وابستہ طب یونانی سے جن امراض کا علاج ہو سکتا ہے اس کے لئے اسی طب پر خرچ کریں تاکہ ملت کا پیسہ اسی ملت کے پاس رہے۔)
(۱۰) غیر ملک کی دواؤن پر بھروسہ کرنے کے بعض تلخ نتائج ہوتے ہیں جیسا کہ اس جنگ عظیم کے دوران میں دیکھا گیا کہ بعض دواؤں کے نہ ہونے کی وجہ سے (آج کل کرونا وباء کی وجہ سے)ڈاکٹروں کو علاج کرنے میں اور بیماروں کو اپنی بیماریوں کی دوائیں لینے میں کتنی مشکلات پیش آئیں۔ اگر انگلستان کا بیڑا کمزور ہوتا اور ستہ کی حفاظت نہ کرسکتا اور ہندوستان صرف ڈاکٹری علاج کرتا تو ہر ایک سمجھ سکتا ہے کہ بیمارون کی اور معالجوں کی کیا حالت ہوتی۔(یہ بات حکیم صاحب نے اس زمانے کے اعتبار سے کہی تھی لیکن کچھ پتہ نہیں کہ ناسازگار حالات کب پیش آجائیں اور وہی احتیاج کب پیدا ہوجائے۔)
حضرات! یہ وجوہ ہیں جو ہمیں مجبور کرتی ہیں کہ ہم اپنی دیسی طبوں کی حفاظت اور ان کی ترقی کے وسائل میں منہمک ہوجائیں اور یہ وجوہ ہیں جن کو پیش نظر رکھ کر ہر ایک ہندوستانی کا یہ فرض ہونا چاہیے کہ وہ ان دیسی طبوں کی ترقی اور بقاء کے مسئلہ کو ہمیشہ پیش نظر رکھے۔

Comments

Popular posts from this blog