طب نبوی ﷺکے بارہ میں محدود سوچ

 طب نبوی ﷺکے بارہ میں محدود سوچ

طب نبوی ﷺکے بارہ میں محدود سوچ

 طب نبوی ﷺکے بارہ میں محدود سوچ
طب نبوی ﷺ کے بارے میں لوگ محدود سوچ رکھتے ہیں کتب احادیث کوفن طب پر لکھی جانے والی کتب پر قیاس کرتے ہیں۔جب کہ کتب احادیث کو خاص ضرورت اور دینی فریضہ سمجھتے ہوئے اللہ کی رضاء کے لئے ترتیب دیا گیا تھا ۔ ان میں مذکورہ احادیث سے بے شمار مسائل استخراج کئے گئے ، مندرج احادیث کو بطور شہادت اپنی کتب میں حوالہ جات کے طور پر درج کیا گیا، امت کا یہ اعتماد شاید ہی کسی دوسرے فن کو نصیب ہوا ہو۔پاک و ہند کے لوگ خاص مزاج کے حامل ہیں،وہ اپنی ضرورت کی تمام اشیاء ایک ہی چھت کے نیچے تلاش کرنے کے عادی ہیں ۔ محنت و جستجو کا میدان عمومی طورپر فارغ ہی رہتا ہے۔ہماری کوشش اور مطمح نظر بنے بنائے ۔کئے کرائے کام پر ہوتی ہے ۔ جولوگ کتب احادیث میں اپنے امراض کی دوائیں تلاش کرتے ہیں،یا اپنی ضرورت کی چیزیں تلاش کرتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ اس خواہش سے پہلے زمانہ نبوت کے ساتھ ساتھ ان کتب کی زمانہ تصنیف کو مد نظر رکھیں۔
پیدائش امراض وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہیںکیونکہ امراض ماحول۔غذا،تمدن۔ کے تابع ہوتے ہیں۔نبی ﷺ کے دور مسعود میں جس قسم کی غذائی اور لباس تھا آج کے دور میں اس کا تصور بھی مشکل ہےکیونکہ ہمارے ماحول اور مزاج سے وہ تطابق نہیں رکھتا اگر کوئی اپنانا چاہتا تو یہ توفیق الیہی پر منحصر۔ورنہ۔۔۔۔۔
تاریخ طب کامطالعہ کریں یا طبی موضوعات پر لکھے گئے مواد کو کھنگالیں۔بہت سے امراض ایسے ملیں گے جو اس کتب کو لکھتے وقت انسانیت کے لئے درد سر بنے ہوئے تھےبلکہ لاعلاج سمجھے جاتے تھے۔آج انہیں معمولی مرض سمجھا جاتا ہے ،بلکہ علاج دریافت ہونے کے لئے اسے امراض کی فہرست سے ہی خارج کردیا گیاہےکچھ نئے امراض نے جنم لیا ہے آج لوگ ان سے پریشان ہیںآنے والاکل جب ان امراض کا شافی علاج پیش کردیگا تو ان کی اہمیت بھی کم ہوجائے گی نئے ابھرنے والے امراض منہ کھولے پریشان کرنے کے لئے دروازوں پر دستک دیں گے۔جب امراض و معالجات اس سرعت سے آتے جاتے ہیں تو ڈیڑھ ہزار سالہ پہلے کہی گئی باتیں ہمارے لئے کس طرح مفید ہوسکتی ہیں؟ یہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔
جب تک انسان رواجی ذہن سے اوپر اٹھ کر سوچ نہیں پاتا۔آگے چلنا اور نئی باتیں کرنا اس لئے مشکل ہوتا ہے کہ یہ کیسےممکن ہے کہ ہزاروں سال سے چلی آرہی بات غلط ہوجائے اس کے مخالف چلنامشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن دکھائی دیتا ہے۔لیکن جب اس کا لاشعور نیا رخ دکھاتاہے تو اس میں ہمت بڑھتی ہے اور ایسا کارنامہ کرگزرتاہے جس کی توقع لوگوں سے مشکل تھی،جب آدمی اپنے آپ کو ہمہ تن کسی کام میں لگا دے تو وہ اسی طرح اس کے رازوں کو پالیتا ہے ۔(راز حیات)
مجھے آج بھی یاد پڑتا ہے میں کسی کتاب میں حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ کی تحریر پڑھی تھی کہ،اسلام ہر قسم کی ضرورت پوری کرتا ہے حقیقی ضرورت کو اسلام کبھی نظر انداز نہیں کرسکتا التبہ ضرورت اورخواہشات میں فرق ہونا چاہئے۔جو لوگ کہتے ہیں کہ اسلام اس وقت کی ضروریات کے لئے کافی نہیں انہیں چاہئے کہ ان ضروریات کی فہرست تیار کریں جنہیں اسلام پوری نہیں کرسکتا۔تاکہ ہمیں بھی معلوم ہوکہ اسلام کہاں جاکے عاجزی اختیار کرتا ہے؟یہ فہرست اس وقت کسی نے تیار کی نہ آج کوئی تیار کرسکتا ہےکیونکہ اسلام تمام فطری ضروریات کی تکفیل و تکمیل کرتا ہے ۔۔۔۔
اسلام ان بحثوں میں نہیں پڑتا کہ آج جن چیزوں کو اہم سمجھاجارہا ہے کل کلاں لوگوں کی خواہشات اس سے آگے بڑھ جائیں انہیں کوئی اور فیشن پسند آجائے،اسلام اس کا بھی ساتھ دے۔ہر زمانے میں بدلنے والے رجحانات کے مطابق اسلام کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جائے۔یہ اسلام کی خدمت نہیں بلکہ تحریف ہوگی۔اسلام جن موضوعات کو انسانیت کی ضرورت سمجھتا ہے، وہ فطری ہیں،وہ زمانے کے بدلائو کے ساتھ نہیں بدلتیں حالات کیسے بھی ہوں ۔کتنی میں تبدیلیاں آجائیں۔ فقیر ہو کہ بادشاہ جن کے بغیر دونوں میں سے کسی بھی گزارا نہ ہویعنی وہ امارت یا غربت سے متعلق نہ ہو بلکہ حقیقی ضرورت ہواسلام اس ضرورت کو اپنی ذمہ داری سمجھے ہوئے اسے مباح نہیں بلکہ عین عبادت سمجھتا ہے،کھانا ، پینا۔ لباس ۔ نکاح،تولد و تناسل۔خواب و بیداری،عبادات،معاملات،حقوق اللہ اور حقوق العباد کا تعین،جزا و سزا کے مضبوط نظام، اعمال کا محاسبہ۔ہر کام میں اعتدال۔فرق مراتب،اہل علم کی قدردانی۔محنت کا مناسب معاوضہ، انسانیت کی خدمت کو عین رضائے خدا وندی قرار دینا وغیرہ۔ مالک کومالکانہ حقوق،ملازمت کے لئےاس کے تحظ کا معقول بندوبست۔کھانے پینے میں اعتدال۔جس آدمی کی جتنی فطری ضرورت ہے اس کی تکمیل وغیرہ سب ہی کچھ تو اسلام دیتا ہے۔اس کا مربوط نظام،بہترین عملی نمونہ اور عمل کے لئے مناسب راہیں مہیا کرتا ہے۔
ہمارا موضوع طب نبوی ہے۔
اس میں انسانی امراض کا فطری حل پیش کیا گیا ہے۔اس روئے سخن نسخوں سے زیادہ ان اسباب کی طرف ہے جن کی وجہ سے امراض جنم لیتے ہیں۔جو عوامل انسانی جسم میں بے اعتدالی پیداکرکے امراض کا سبب بن سکتے ہیں ان سب کا تدارک کردیا گیا ہے۔اسلام کو کسی زاویہ سے دیکھ لو یہ بنیادی امور سے بحث کرتا ہے۔دنیا میں جنتے بھی طرق علاج پائے جاتے ہیں۔جتنے بھی نظام صحت قائم ہیں ،وہ اس وقت حرکت میں آتے ہیں۔جب انسان صحت جیسی نعمت سے محروم ہوجاتا ہے۔بستر علالت پر دراز ہوجاتا ہے۔ تمام معالجاتی نطام مرض لاحق ہونے کے لئے حرکت پزیر ہوتے ہیں لیکن اسلام کیونکہ فطری نظام ہے اس کا نظام صحت بھی فطری ہے۔اس کے اصول بتاتے ہیں ،بیمار ہونے پر مریض و معالج دونوں ہی متوجہ ہوتے ہیںلیکن اسلام کہتا ہے تمہیں جو نظام زندگی دیا جارہا ہے اس پر عمل پیرا ہو نے سے صحت کو طویل عرصے تک بحال رکھا جاسکتا ہے۔اس طبی حصے کو طب وقائی کا نام دیا جاتا ہے۔اہل علم نے اس پر کتابیں لکھی ہیں۔
 طب نبوی کا ماہر ایک امین ہوتا ہے وہ اپنےمطالعہ اور تجربے کی بنیاد پر مطمئن بھی ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کو انتہائی غیر معمولی صلاحیت کے ساتھ پیداکیا ہے ،اس صلاحیت کی خاصیت ہے کہ انسان تاریکی میںبھی روشنی کا پہلو دیکھ لیتا ہے،اگر مقصد پیش نظر ہو تو ناموافق حالات کو بھی موافق حالات میں تبدیل کرسکتا ہے جب اس کی بازی کھوگئی ہو اس وقت وہ دوبارہ اپنے لئے راہیں اور نیا میدان عمل تلاش کرلیتا ہے جس میں جدو جہد کرکے وہ از سر نو اپنی منزل پر پہنچ سکے۔

Comments

Popular posts from this blog