جواہر اور نگینے ، انسانی طبیعت کا انبساط و انقباض۔Jewelry and jewelry, Expansion and contraction of human nature۔المجوهرات والمجوهرات توسع وانكماش الطبيعة البشرية

 جواہر اور نگینے ،
انسانی طبیعت کا انبساط و انقباض
Jewelry and jewelry,
Expansion and contraction of human nature

المجوهرات والمجوهرات
توسع وانكماش الطبيعة البشرية

المجوهرات والمجوهرات توسع وانكماش الطبيعة البشرية

جواہر اور نگینے ،انسانی طبیعت کا انبساط و انقباض
انسانی مزاج کے انبساط و انقباض کے اثر لامحالہ طور پر اس کے کردار وافعال پر ہوتاہے انبساطی کیفیت اور خوشی کے لمحالت میں انسان ایسے کام کرجاتاہے جو انقباض یا غمی رنجیدہ ہونے کی حالت میں نہیں کرسکتا،انسانی تجربات میں بہت سی ایسی آچکی ہیں جن کے کرنے سے انسانی کیفیات میں نمایاں تبدیلیاں رونماہوتی ہیں،ایسے جواہر اور قیمتی پتھر موجود ہیں جنہیں پاس رکھا جائے توطبیعت انسانی میں بہت تغیر پیدا ہوجاتاہے جولوگ ان کاموں سے عقیدت رکھتے ہیں انہیں رہنے دیا جائے ایسے لوگ جو بال کی کھال اتارنے والے ہوتے ہیں وہ بھی اور ان کا مفکرین کے نام پر شہرہ وہ بھی ایسے باتوں کو کسی نہ کسی انداز تسلیم کرتے ہیں۔راقم نے مولانامودودی مرحوم کی تحریر پڑھی جنہوں نے لکھا تھا کہ گردہ کے درد میں ایک انگوٹھی پہنی جس کانگینہ پتھر کا تھا اس کے بعد مجھے گردہ کی درد نے نہیں ستایا۔
حلال و حرام کا مسئلہ
اس چیز میں شبہ نہیں جو کرتاہے اللہ کرتاہے سوچناتو یہ ہے یہ اشیاء پیداکس نے کی ہیں ؟ کیا ان اشیاء میں اللہ تعالیٰ کے کام کی کوئی چیزدکھائی دیتی ہے کہ فلاں چیز ممنوع ہے کیونکہ اسے اللہ تعالیٰ نے اپنے کام میں لاناہے؟ ایساہرگز نہیں ہے کیونکہ وہ ذات ان کمزوریوں اور نقائص سے مبراء و پاک ہے سب چیزین ہمارے لئے ہی تو پیداہوئی ہیں تفکر فی آیات اللہ سے کیا مراد ہے؟کائنات کی سب چیزوں کو ہمارے لئے مسخر کردیا ہے یہ ایسااٹل فیصلہ ہے جس سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا ستارے اور سیارے سب مسخرات بامرہ ان کی تسخیر سے کیا مراد ہے حتمی طور پر کچھ نہیں کہاجاسکتالیکن اتنا ضرور ہے ان چیزوں سے مستفید ہونا ہرگزشرک نہیں ہے، اگر تسخیر ان معنوں میں لیتے ہیں جیسے گھوڑے کو قابو میں کرکے اس کی لگامیں پکڑکر سواری کے لئے جڑھ جاتے ہو شاہد ایسا تو ممکن نہ ہوسکے۔بالفرض ایسا ہوبھی گیاتو یہ ہم ایسی سوچ والے ہرگز نہیں کرسکتے جن کی سوئی ایک جگہ پر اڑی ہوئی ہے اور وہ مذہب کو اپنی جہالت کے لبادہ میں لپیٹی پڑے ہیں، جو اُن کی سمجھ میں آجائے مذہب ہے اور اسے کرنے میں بھی کوئی قباحت نہیں ہے لیکن جو چیز ان کی سمجھ میں نہ آئے اسے شرک اور خلل فی الدین قرار دیںتو قرین قیاس نہیں ہے۔ضرورت تو اس امر کی ہے کہ ہمیں ان معاملات کو سمجھنا چاہئے جن پر لب کشائی کرنے والے ہیں یا اس کے بارہ میں ہمیں بولنا پڑ رہا ہے، اگر ناسمجھی کی بناپر کہی گئی بات کی جگہ انسان یہ کہدے کہ اس بارہ میں مجھے پوری معلومات نہیں کسی زیادہ معلومات رکھنے والی ماہر سے پوچھ کر بتائوں گا ایسی روش سے بہت خوشگوار اثرات مرتب ہونگے۔اس گئے گزرے دور میں دین کو مذاق بنالیا گیا ہے اس کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جنہوں نے دین میں فہم پیدا کئے بغیر اظہار خیال شروع کردیا ،حالانکہ ان لوگوں کو متعلقہ معاملہ میں سوجھ بوجھ کے بعد بولنا چاہئے تھا ،معلومات کے بے بہا ذرائع موجود ہیں، جدید ٹیکنالوجی نے ایسا میدان علم و عمل مہیاکردیا ہے سست و کاہلی کی تو کئی دوا نہیں آگے بڑھنے والے کے لئے تو کئی جہاں موجود ہیں ۔

Comments

Popular posts from this blog