انسانی جسم پر شعاعوں کے اثرات،Effects of radiation on the human body،آثار الإشعاع على جسم الإنسان

 انسانی جسم پر شعاعوں کے اثرات
Effects of radiation on the human body

آثار الإشعاع على جسم الإنسان

آثار الإشعاع على جسم الإنسان

انسانی جسم پر شعاعوں کے اثرات
البتہ جدید سائنسدانوں نے جو تجربات کئے ہیں ان کی بنیاد پر کہ سکتے ہیں کہ ستاروں سے پھوٹنے والی شعاعیں انسانی وجود اور انسانی شعور پر اثرات مرتب کرتی ہیں کئی ستاروں سے آنے والی شعاعیںانسانی وجود میں انبساط پیدا کرتی ہیں کچھ میںآنے والی شعاعیں انقباض پیدا کرتی ہیں انہی اثرات کی بناپر اگر انہیں سعد ونحس کہا جائے تو کسی قسم کی قبا حت پیش نہیں آسکتی نہ ہی کوئی شرعی قدغن لگ سکتی ہے۔علوم جدیدہ کی روسے کہا جاسکتا ہے کہ انسان رنگ و نور کے بغیر زندہ نہیںرہ سکتااِسے خوراک کی طرح مختلف شعاعوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے، جدید میڈیکل میں مختلف امراض کا شعاعوں سے علاج کیا جاتا ہے آلات جدیدہ سے معلوم کیا جاسکتا ہے کائینات میں کونسی شعاع کتنی مقدار میں کیا کام کرتی ہے۔ ان شعاعوں سے کس طرح استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
سعد نحس
رہی یہ بات کہ پہلے لوگوں سعد و نحس کا تصور کس بنیاد پر دیا تھا اور اپنے اعما ل اس نہج پر کیوں ترتیب دیا تھا،ہوسکتاہے انہیں کسی حد تک ان شعاعوں کا ادراک ہوگیاتھا لیکن وہ سعد و نحس کے علاوہ انہیں کوئی دوسرا نام نہ دے سکے ہوںمگر انہیں ان سے ہونے والے نفع ونقصان کی حد تک احساس ضرور تھامعلومہ حدود میں رہتے ہوئے ان سے مستفیدہوناان کی ضرورت تھی انہوں اس ضرورت کو احسن انداز میں پورا کیا۔جب انہوں نے یہ احکامات نجومیہ مرتب کئے تھے ان کے پاس ایسے آلات موجود نہ تھے نہ یہ آج جیسی سہولیات انہیںمسیر تھیںانہوںنے جو کچھ کیا ان کی ذہانت پر دال ہے۔اب اگر کسی بات کی ضرورت ہے تو صرف اس قدر کہ جو احکامات نجومیہ ہم تک پہنچے ہیں انہیں جدید انداز میں پرکھا جائے کہ کس قدر انسانی زندگی پر یہ اثرات مرتب ہوتے ہیں فلکیات والے اور مذہبی لوگ تو اس سلسلہ کو لغو ولایعنی قرار دیتے ہیں ۔ایسی باتیں تو اور بھی بہت سے معاملات میںدیکھنے کو ملتی ہیںکسی معاملہ ہر کسی کی رائے معتبر تو نہیں ہوسکتی فلکیات و مذہب کا جب اس میں عمل دخل ہی نہیںہے توچاہئے کہ ان کی بھی سن لی جائے جو اس سے دلچسپی رکھتے ہیں ہوسکتاہے مذہبی نکتہ نظر سے اس لئے حرام قرار دیا گیا تھا لوگ خدا ئی اختیارات کو خلط کردیتے تھے جوکام خدا کے ساتھ مخصوص ہیں انہیں ستاروں کی طرف نسبت دی جاتی تھی اگر یہ نقص دور کردیاجائے اور کوئی قابل قبول صورت سامنے آجائے تو پرانے لوگوںکے تجربات سے مستفید ہواجاسکتا ہے اور درمیانی راہ تلاش کی جاسکتی ہے۔صرف حرام کہنے اور اس کے خلاف محاذ آرائی سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔
رنگ و نور سے علاج
علاجوں میں ایک طریقہ رنگوں سے علاج کا بھی ہے اس کے ماہرین پانی تیار کرکے دیتے ہیں جس سے امراض میں حیرت انگیزطور پر تبدیلی آتی ہے، رنگوں کے ماہرین نے رنگوں کی تقسیم کی ہوئی اور علاج الامراض میں مختلف نگوں میںتیا رکیاگیا پانی استعمال کرایا جاتا ہے ۔ جب کہ روحانی معالجین بھی اپنے اعمال اور تیار کردہ طلسموں کو تیجم کرتے ہیں جسے بہت سے علماء نے ناجائز قرار دیا ہے لیکن تیجم کرنا اور مختلف قسم کے ستاروں کی شعاعوں سے پانی تیا ر کرکے امراض اور روحانیات میں معروف چیزہے کچھ اشیاء واقعی اتنی حساس ہوتی ہیںان پر رنگوں اور شعاعوں کا بہت زیادہ اثر ہوتا ہے اسی طرح کچھ طبائع میں بھی یہی کچھ تاثیر پائی جاتی ہے ان پر رنگ ونور بہت گہرااثر ڈالتے ہیں اور کائناتی شعاعوں سے بہت گہرا تأثر لیتے ہیں،رہی یہ بات کہ شرعی انداز میں اسے کیا کہاجائے تو یہ متعلقہ لوگ ہی بہتر انداز میں بتاسکتے ہیں جو عقائد و نظریات ستاروں میں نفع و نقصان پہنچانے کے بارہ میں ان نظریات کی اس دور میں خاص اہمیت باقی نہیں رہ گئی ہے، جب تک انسانی دماغ ان کی گہرایئوں سے ناآشناتھا اسوقت تک کچھ بھی کہا جاسکتاتھا لیکن آج تحقیق نے الگ انداز اختیار کرکے بہت سی باتوں کوصاف کردیا ہے عقائد کے اوپر پڑی ہوئی دھول کواڑاکر رکھ دیا ہے ۔
انسانی وجود پر پڑنے والی شعاعوں کی مثال
اگر اثرات کا ہی تعلق ہے تو اس سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ ان ستاروں سے پھوٹنے والی روشنی اور ہم تک آنے والی شعاعیں انسانی وجود پر لامحالہ اثر انداز ہوتی ہیں، اس کی مثال ہم یوں دے سکتے ہیں کہ ایک شیشے کا بہت بڑا مرتبان ہو جو معمولی سے معمولی آنے والی روشنی اور شعاع کو جذب کرلیتا ہو ،اس سے مرتب ہونے والے اثرات کو محفوظ بھی رکھتا ہو اس پر بہت سی آنے والی شعاعیں پڑرہی ہیں، بس ہی بات ہم انسانی وجود کے بارہ میں کہ سکتے ہیں جو ستاروں سے ابھرنے والی روشنی اور کائناتی شعاعوں سے ہر لمحہ متأثرہوتا رہتاہے۔جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ انسان ستاروں سے آنے والی شعاعوں سے متأثر ہوتا ہے کوئی اس کے اندرانبساط پیدا کرتی ہے تو کوئی انقباض اور انسان اپنے تجربے یاماہرین کی خدمات حاصل کرکے اس بات کاپتہ چلا لیتاہے کہ فلاں قسم کی روشنی اس کے لئے نقصان دہ ہے کیونکہ ہر ستارے سے الگ اور جداگانہ روشنی نکلتی ہے،جب اسے اپنے اندر ہونے والی تبدیلی کا پتہ چل جاتا ہے تو ایک تجربہ کار اسے کوئی چیزدیتا ہے جس سے اس روشنی سے پیدا ہونے والے اثرات نقصانی سمت سے رخ پھیر لیتے ہیں ،تواس میں کوئی قباحت نہیں ہے یا یوں کہ لیں کی ایک آدمی کو کسی خاص قسم کی شعاع کی ضرورت ہے لیکن وہ اسے پوری طرح نہیں مل رہی، اگر اسے کوئی آلہ دیدیا جائے جو مطلوبہ شعاع کو زیادہ مقدار میں جذب کرسکے تو اسے ایسا کرلینا چاہئے۔
حدیث مبارکہ ہے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں ایک بار رسول اللہﷺنے میرا ہاتھ پکڑکر چاند کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا’’اے عائشہ!اللہ کی پناہ مانگو غاسق سے شر سے‘‘یعنی چاند کے شر سے(تفیسر طبری748/24)جب یہ چھپنے لگے۔الماتریدی نے اس کی تفصیل دی ہے (النکت والبیان375/6۔ترمذی کتاب التفسیر452/5،الحاکم 541/2)
سائنسدانوں کا تجربہ
سائنسدان اس بات کا اندازہ لگارہے ہیں سورج سے آنے والی روشنی اور دیواروں پر ہونے والا رنگ و روغن ہماری صحت و مزاج پر کس انداز میں اثرا انداز ہوتے ہیں۔ایک چھوٹی سی لڑکی کی بینائی ختم ہورہی تھی اس سے آنکھ میں ورم آگیا تھا، جس کی وجہ سے آنکھ آگے کی طرف بڑھتی جارہی تھی۔تین بار عمل جراحی کیا گیا مگر کوئی فائدہ سامنے نہ آیا۔باقی علاج بھی فائدہ مند ثابت نہ ہوئے۔اس کے معالج نے مزید کچھ تدبیر کیں۔مشورہ دیا گیا کہ بچی روزانہ چند گھنٹے سورج کی روشنی میں گزارے، جس کمرے میں وہ سوتی ہے اس کے پردوں اور دیواروں اور خود اس کے کپڑوں کا رنگ سبز نیلا ہو۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چند مہینوں میں اس کی بینائی بحال ہوگئی ۔ کیونکہ نورورنگ خاص اہمیت کے حامل تھے جنہوںنے صحت کی بحالی میں بنیادی کردار ادا کیا۔قدیم مصری و یونانی باشندے روشنی سے علاج کیا کرتے تھے بعد میں اس طرف سے لاپرواہی برتی گئی۔غالبا روشنی کا اثر غدہ صنوبر (Pineal)اور غدہ نخامیہ(Pituitary) دوسرے غدے متأثر ہوتے ہیں۔سورج کی روشنی جسم کی حفاظتی صلاحیت میں اضافہ کرتی ہے(ماہانامہ قانون مفرد اعضاء نومبر2003)

Comments

Popular posts from this blog