سیرت رسولﷺ کے چار اہم پہلو اور عصری تقاضےFour important aspects and modern requirements of the biography of the Prophet أربعة جوانب مهمة ومتطلبات حديثة في السيرة النبوية

 سیرت رسولﷺ کے چار اہم پہلو اور عصری 

تقاضےFour important aspects and modern requirements of the biography of the Prophet

   أربعة جوانب مهمة ومتطلبات حديثة في السيرة النبوية



سیرت رسولﷺ کے چار اہم پہلو اور عصری تقاضے
بشکریہ
صاحبزادہ محمد امانت رسول
دور حاضر میں سیرت رسول ﷺکے چار پہلو مسلمانوں کیلئے بہت ہی اہمیت کے حامل ہیں۔
-1 مثبت سوچ اور رویہ:
آپ ﷺکے خلاف جتنی بھی سازشیں کی گئیں ‘ راستے میں کانٹے بچھائے گئے‘ اونٹ کی اوجھڑی ڈالی گئی‘ پتھر برسائے گئے‘ کوڑا ڈالا گیااور آپ سے زبانی بدکلامی کی گئی لیکن آپ نے کبھی معاشرے کی بہتری اور فلاح کو ترک نہ کیا حتیٰ کہ اپنے رفقاءکو بددعا سے بھی منع فرمایا۔ کفار و مشرکین‘ منافقین ‘ یہودو نصاریٰ نے آپ کو تکلیف دینے کا ہر طریقہ اختیار کیا‘ آپ نے کبھی ان سے انتقام کا راستہ اختیار نہ کیا‘ درحقیقت مشکلاتِ زندگی ایک صالح انسان کو اسے اپنے مقصد سے ہٹانے کیلئے آتی ہیں لیکن مثبت لوگ ہمیشہ اس سوچ ‘ رویئے اور کارروائی سے باز رہتے ہیں جو انہیں اپنی منزل سے دور کر دیں۔ میں یہاں شب ہجرت کا ذکر ضرور کروں گا جب کفار و مشرکین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا فیصلہ کر لیا تو آپﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلا کر فرمایا : ”میرے ذمہ بہت سی امانتیں ہیں‘ تم میری جگہ سو جاؤ اور امانتیں ادا کر کے مدینہ پہنچ جانا۔“ اندازہ کیجئے ! مخالفت کے باوجود ان لوگوں کو آپ کی صداقت پہ کتنا بھروسہ تھا کہ اپنی امانتیں آپ ﷺ کے پاس رکھواتے ۔ مثبت عمل کا نتیجہ ہمیشہ اچھا ہی ہوتا ہے‘ دشمنیوں اور عداوتوں کے باوجود آپ ﷺ نے اپنے دشمنوں کا بھلا ہی سوچا‘ انہیں دنیا میں نقصان نہ پہنچایا اور ہمیشہ ان کیلئے ایمان کی دعا فرمائی۔
-2ردعمل نہیں عمل :
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہمیں بتاتی ہے کہ زندگی کی بنیاد عمل پر رکھنی چاہیے۔ میں نے پہلی بات جو عرض کی وہ دوسری بات سے بالکل جدا ہے۔ ردعمل کی سوچ اجتماعی عمل کو بانجھ کر دیتی ہے‘ قوم ردعمل کیلئے کسی بڑے حادثے کا انتظار کرتی ہے۔ جب کوئی حادثہ ہوا‘ قوم اٹھتی اور ردعمل ظاہر کرتی پھر سو جاتی ہے‘ اسے اس خواب غفلت سے پھر کوئی حادثہ ہی اٹھا سکتا ہے۔ ردعمل کا رویہ قوم کے اعصاب و ارادے کو شل کر کے رکھ دیتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک خدائی پروگرام کے مطابق احسن طریقے سے اپنے مقصد کی طرف بڑھتے رہے‘ آپ عمل کرتے رہے‘ مخالف ردعمل کرتے رہے‘ آپ نے قرآن مجید سنایا‘ انہوں نے ردعمل میں شاعری کا الزام لگایا‘ آپ نے توحید کی تعلیم دی ‘ انہوں نے شرک کا پرچار کیا‘ آپ نے اسلام کی دعوت دی‘ کفار نے دعوت کا انکار کیا‘ مسلمانوں نے ہجرت کی انہوں نے تعاقب کیا‘ مسلمانوں نے سرعام تلاوت کی‘ کفار نے اذیت دی‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدات کیے انہوں نے معاہدہ شکنی کی‘ اسلام پھیلتا رہا وہ روکنے کی کوشش میں لگے رہے‘ پیغمبرخدا اور مسلمان عمل میں رہے‘ کفار و مشرکین ردعمل میں رہے‘ وقت نے ثابت کر دیا کہ جیت عمل کرنےوالوں کی ہوتی ہے۔ ردعمل کرنےوالے ناکام ہوتے ہیں کیونکہ انکو بیدار رکھنے کیلئے ہمیشہ ایمرجنسی حالات کی ضرورت ہے اور ایسے حالات ہمیشہ رہتے نہیں ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی خفیہ صلاحیتوں کو جگایا‘ انہیں ایک باعمل انسان بنایا‘ انہیں وہ سوچ دی جو عمل پر مبنی تھی۔اس حوالے سے‘ کثیر واقعات ہماری رہنمائی کرتے ہیں کسی کافر ‘ منافق یا مشرک نے آپ کی شان میں گستاخی کی‘ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی ہمیں حکم دیجئے !ہم اس گستاخ کی گردن سر تن سے جدا کر دیں لیکن آپ نے منع فرمایا اور معاف کرنے کو ترجیح دی چونکہ یہ ردعمل کا نتیجہ تھا اس لئے آپﷺ نے اس سے منع فرمایا اور ہمیں تعلیم دی کہ ناقابل برداشت حالات میں ردعمل نہیں…. عمل کی بنیاد پہ سوچو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے عمل کو عارضی غصہ‘ وقتی کیفیت اور جذباتی حالت ختم کر دے‘ تم اپنی طاقت و صلاحیت کو عمل کیلئے جوڑ کر رکھو‘ یہ دنیوی اور اخروی ترقی کیلئے ذریعہ بنے گی۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ دوران جنگ ایک کافر سپہ سالار کے سینے پہ قتل کرنے کیلئے چڑھ بیٹھے ‘ اس نے فوراً تھوک دیا‘ آپ اسی وقت اس کے سینے سے اٹھ گئے ‘ اس نے کہا میں خدا کا دشمن ہوں اور میں نے آپ کی بھی گستاخی کی‘ آپ مجھے بیدردی سے قتل کر دیتے لیکن آپ اٹھ کھڑے ہوئے۔ آپ نے فرمایا میں اس لئے اٹھ کھڑا ہوا کہ میری دشمنی کی وجہ یہ ہے کہ تو دشمنِ خدا ہے لیکن جب تو نے تھوکا تو میری ذاتی عداوت بھی اس میں شامل ہو گئی۔ یہ واقعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے ہے لیکن اس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا یہ پہلو بھی اجاگر ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے صحابہ کی تعلیم و تربیت کیسی تھی؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں عمل کرنا سکھایا تھا۔ امت مسلمہ کو سیرت سے یہی سبق حاصل کرنا ہے کہ بین الاقوامی معاملات ہوں یا ملکی‘ سیاسی ہوں یا مذہبی‘ ردعمل کی پالیسی اختیار نہیں کرنی اور نہ ہی اپنی سوچ اور رویے کو اس کے تابع کرنا ہے‘ بس ہم نے عمل کیے جانا ہے کیونکہ عمل میں Originality ہے‘ ردعمل اشتعال و برانگیختی کا نام ہے‘ اس کا نتیجہ سوائے ضیاعِ وقت و صلاحیت کے اور کچھ نہیں ہے۔
-3تصادم سے گریز:
آ پ ﷺنے ٹکراؤ اور تصادم سے احتراز کیا‘ مکی زندگی ہو یا مدنی زندگی آپ نے بلاتفریق سب سے صلح جوئی کا راستہ اختیار کیا‘ مخالف فریق کی شرائط کو تسلیم کیا‘ اگرچہ وہ خود آپ کے اور آپ کے صحابہ کے خلاف تھیں ‘ آپ نے اس حد تک جا کر بھی یہ بتا دیا کہ میں کسی قیمت میں تصادم نہیں چاہتا مثلاً صلح حدیبیہ کے موقع پر جو شرائط لکھی گئیں وہ بظاہر مسلمانوں کے مفاد کے خلاف تھیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اسی سے ”خیر“ پیدا فرما دی۔ آپ نے ہمیشہ امن و سلامتی کی تمنا فرمائی۔ Confrontation سے آ پ نے ہمیشہ گریز کیا۔ جہاں تک جنگوں کا سوال ہے وہ بھی مسلمانوں پر مسلط کی گئیں ‘ جب کفار و مشرکین نے مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا ارادہ کر لیا تو مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دی گئی‘ رب تعالیٰ کی طرف سے مدنی دور میں جنگ کی اجازت دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ اجازت دشمن کی جنگی تیاریوں اور ان کی طرف سے ہونے والے مذہبی جبر کے باعث دی گئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے ”عافیت“ کا سوال کیا اور اسی بات کی تلقین فرمائی۔ فتح مکہ کے دن جب کسی نے اسے جنگ و سزا کا دن قرار دیا تو آپ نے فرمایا نہیں یہ رحمت کا دن ہے‘ حالانکہ فتح مکہ کے روز کفار آپ کے سامنے محکوم قوم کی حیثیت رکھتے تھے لیکن آپ نے اس دن بھی ٹکراؤ سے پرہیز کیا بلکہ سب کو معاف فرما دیا۔ مسلمانوں کی حالت کوئی بھی ہو اسے ہر طرح جانی‘ مالی نقصان سے خود کو بچانا ہے ‘ اپنے آپ کو خوامخواہ مشکل و امتحان میں ڈالنا خدا و رسول کو پسند نہیں ہے اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو راستوں کا اختیار ہوتا تو آپ دونوں میں سے وہ راستہ اختیار فرماتے جو سب سے زیادہ آسان ہوتا۔ آپ نے یہی فرمایا:
یسروو والا تعسوا
بشروا ولا تنفروا
”آسانیاں پیدا کرو‘ تنگی پیدا نہ کرو‘
بشارت دو‘ متنفر نہ کرو۔“
ممکنہ حد تک غیر مسلم اقوام سے تصادم سے بچنا یہ سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہے‘ تصادم سے پرہیز ہی دعوت اسلام کے امکانات کو بڑھاتا ہے‘ ٹکراؤ سے بچنا ہی غیروں کے دلوں میں مقام بنانے کا سبب ہے‘ اسلام محبت سے پھیلا اور اب بھی پھیلے گا۔
-4 نظام اجتماعی:
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ و مدینہ کے نظام اجتماعی کو یکلخت نہیں بدلا۔ آپ نے ایک ہی وقت میں سب محاذ نہیں کھولے‘ آپ نے مکہ میں لوگوں کو توحید کی دعوت دی انہیں خدا کی طرف بلایا‘ جو رویے بنیادی حقوق کے خلاف تھے ان کی نشاندہی فرمائی اور چند افراد ایسے تیار فرمائے جو ”بنیادی حقوق“ کا خیال رکھنے والے اور غیر انسانی رویوں سے پاک تھے۔ آپ نے ان کے سیاسی نظام کو جو قبائلی نظام پہ مشتمل تھا اسے غیراسلامی قرار نہیں دیا کیونکہ اس نظام میں خوبیاں بھی تھیں۔ اس نے لوگو ں کو آپس میں باندھ کر رکھا ہوا تھا‘ اس نظام میں سردار و قبیلہ کا تصور تھا‘ لوگ بڑوں کے فیصلے کو سنتے اور مانتے تھے۔ وہ قوم صحرا ¿ و ریگستان کے ماحول میں پرورش پاتی اور جوان ہوتی‘ ان کی عادات و خصائل میں وہی وسعت و جفاکشی موجود تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے Talent کو اسلام کیلئے استعمال فرمایا‘ ایسے طریقہ کار اختیار نہ فرمایا اور نہ اپنے ماننے والوں کو اختیار کرنے دیا جو نظام اجتماعی کے خلاف ہو جس سے کچھ کرنے کے مواقع کم اور خوامخواہ کے مسائل کے اضافے کے امکانات زیادہ ہوں۔
یہ نکتہ اس حوالے سے بہت اہم ہے کہ ہمارے مصلحین و مبلغین معاشرے کو اخلاقی بنیادوں پر کھڑا نہیں کرتے اور نہ ہی لوگوں کی اصلاح کا کام کرتے ہیں لیکن نظام اجتماعی جو اپنی بسیار خامیوں خوبیوں کے ساتھ کام کر رہا ہوتا ہے اس کو بدلنے کیلئے ایک ایسی جنگ چھیڑ بیٹھتے ہیں جس سے خرابیوں میں اضافہ اور وہ اپنی صلاحیت اور وقت کو بے فائدہ جنگ میں جھونک دیتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے لوگوں کی اخلاقی اقدار کی بنیاد پر اصلاح کا کام کیا‘ اس بات کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ آپ ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں کرپشن‘ بدعنوانی‘ جھوٹ‘ فریب‘ دغا بازی ‘ زناکاری ‘ شراب نوشی‘ حق تلفی‘ ظلم و زیادتی ‘ انسانی حقوق کی پامالی‘ زمینوں پر قبضہ‘ غبن مال‘ ملاوٹ‘ رشوت ستانی اور ذخیرہ اندوزی جیسی برائیاں ہیں۔ لوگ معاملات میں کمزور ہیں‘ لوگوں کی فقط اخلاقی حالت ہی نہیں بلکہ علمی‘ فکری صلاحیت بھی زنگ آلود ہو چکی ہے‘ اصابت رائے اور وسعت خیال ناپید ہو چکے ہیں ‘جہاں لوگوں کے کردار کا یہ عالم ہو تو سب سے پہلے ایک مفکر‘ مصلح یا انقلابی شخصیت کو کیا کرنا چاہیے ؟ واضح بات ہے ہر شخص یہی کہے گا کہ اسے معاشرے کی اصلاح کرنی چاہیے‘ وہ اصلاح علم‘ اخلاق اور فکر کی بنیاد پہ ہونی چاہیے‘ جب مصلحین یہ فریضہ سر انجام دیتے ہیں‘ اگلے مرحلے کیلئے معاشرہ خود تیار ہو جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسا کیا کہ سب سے پہلے افراد سازی کا فریضہ سرانجام دیا‘ افرادسازی کے بعد معاشرے کے نظام اجتماعی میں جو خرابیاں تھیں ان کا علاج بھی خودبخود ہوتا چلا گیا۔
ہمارے مسلم ممالک میں ترجیحات برعکس ہیں جو کام ہمیں سب سے پہلے سرانجام دینا ہے ‘ اس کے نشانات دور دور تک دکھائی نہیں دیتے اور جو کام نتیجتاً خودبخود ہو جاتا ہے‘ اس کیلئے ہم اپنا سب کچھ کھپا دیتے ہیں۔ سب سے پہلے‘ ہم نظام کو چیلنج کرتے ہیں جس وجہ سے مسلم ممالک میں غیرضروری مسائل نے جنم لیا ہوا ہے‘ مذہبی رہنما اسلام کے نام پہ حکمرانوں کو للکارتے اور نظام بدلنے کی بات کرتے ہیں حالانکہ جس نظام کو بدلنے کی بات کرتے ہیں اس کیلئے ذہن سازی اور افراد سازی بہت ضروری ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت رہنمائی کرتی ہے کہ سب سے پہلے نظام نہیں افراد بدلے جاتے ہیں ایسے افراد تیار کیے جاتے ہیں جو نظام اجتماعی میں ترمیم کرتے‘ اس کی خوبیوں کو باقی رکھتے اور خامیوں کو دور کرتے ہیں۔ ایسے لوگ تیار کیے جاتے ہیں جو نظام دیتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بتاتی ہے اگر ابوجہل ‘ ابولہب کے ہوتے ہوئے نظام بدلنے کی تحریک بھی چلائی جائے تو فائدہ مند ثابت نہیں ہو گی‘ فائدہ تب ہو گا اگر پہلے ابوبکر‘ عمر‘ عثمان اور علی رضی اللہ علیہم اجمعین جیسے لوگ تیار کر لئے جائیں۔
میں نے سیرت کے یہ چار اہم پہلو موجودہ حالات کی روشنی میں نقل کیے ہیں۔ آپ نے ان چار پہلوؤں کا مطالعہ کر لیا ‘ اب آپ کا کام یہ ہے کہ آپ اس پہ غور و فکر کریں اور کوشش کریں اس رویے اور طرز عمل سے پرہیز کریں جو ہمیں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف دکھائی دے۔ تعصبات خواہ سیاسی ہوں یا مذہبی‘ گروہی ہوں یا ذاتی ان سب کی سیرت کے باب میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہم ایسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہیں جنہوں نے تعصبات سے بالا ہو کر خالص دین کی اشاعت و دعوت کیلئے زندگی بسر کی۔ ہم پر بھی لازم ہے کہ ہم بھی ایسے مسلمان بنیں جو اپنے ماحول و حالات سے بالا ہو کر سوچیں‘ لکھیں اور عمل کریں۔ اھدنا الصراط المستقیم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیرت نبوی ﷺ کا تجارتی پہلو
 
عرب میں ہر سال جو مشہور تجارتی میلے منعقد ہوتے،ان میں حضور بھی اپنا سامانِ تجارت لے جایا کرتےتھے۔
* * * محمد حذیفہ ہردے پوری۔مظفر نگر،ہند* * *
  جزیرۂ عرب ایک بالکل بے آب وگیاہ علاقہ ہے جہاں کھیتی باڑی کرنے یا مویشی پالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور چونکہ اُس دور میں اہلِ عرب علم و ہنر اور فنون سے بھی نا آشنا تھے اس لئے ان کیلئے معاش کے طور پر ایک پیشہ تجارت ہی بہترین قرار پاسکتا تھا۔ ویسے بھی جزیرۂ نما عرب دنیا کے عین وسط میں ہونے کی بنا پر مختلف ملکوں کے درمیان ایک بہترین مقام ِاتصال تھا اس لئے یہاں کے باشندوں کا عام پیشہ تجارت تھا اور وہ تجارت کے سلسلے میں دور دراز کے ممالک کی طرف سیاحی کرتے رہتے تھے۔ ان کے تجارتی قافلے ایک جانب تو بحر ہند سے لے کر بحیرۂ روم تک اور دوسری جانب جنوبِ عرب میں عمان و یمن سے لے کر شمال میں فلسطین و شام تک چلتے رہتے تھے۔ اس طرح یہ بڑی بڑی تجارتی شاہراہیں انہی کے قبضے میں تھیں اور ان کے بڑے بڑے تجارتی کارواں مال و اسباب سے لدے ہوئے آتے جاتے رہتے تھے۔ موسم گرما میں ان کے سفر شمال میں شام کی طرف ہوتے اور موسم سرما میں جنوب میں عمان و یمن کی طرف۔ آبادی کا بیشتر حصہ اسی تجارت پر گزر بسر کرتا، اپنا بیشتر سرمایہ تجارتی کاموں میں لگائے رکھتا، قا فلوں کی واپسی پر منافع آپس میں تقسیم ہوتے۔
      یہ تاجر پیشہ لوگ دوسرے باشندوں کی بہ نسبت آسودہ تھے۔ان میں سے قبیلۂ  قریش کا تجارتی مقام تو بہت بلند تھا بلکہ وہ عرب کی پوری تجارت پر حاوی تھے جس کی شہادت خود اللہ جل شانہ نے اپنے کلام مقدس میں دی ہے: لا یلٰف قریش، الٰفہم رحلۃ الشتاء والصیف’’قریش کے مانوس کرنے کیلئے،(یعنی) جاڑے اور گرمی کے سفر سے مانوس کرنے کیلئے(اس کے شکریہ میں)۔‘‘ (قریش2,1) ۔
      ماضیٔ قریب کے مشہور محقق ڈاکٹر محمد حمیداللہ رحمہ اللہ اپنی تصنیف ’’رسولِ اکرم کی سیاسی زندگی‘‘ میں لکھتے ہیں:
     ’’چین و عرب کی تجارت عرب سے ہوکر یورپ جاتی تھی۔ قریش کا عرب کی تجارت پر حاوی رہنا ،مصر و شام، عراق و ایران، یمن و عمان، حبش و سندھ وغیرہ سے انھوں جو تجارتی معاہدے کر رکھے تھے اور ’’رحلۃَ الشتائِ  والصیف‘‘ کے باعث شمال و جنوب کے جس طرح قلابے ملاتے رہتے تھے وہ سب جانتے ہیں‘‘۔
      حضرت محمد نے خانوادۂ قریش میں ہی آنکھیں کھولیں اور اسی تجارتی ماحول میں نشوو نما پائی لہٰذا آپ تجارت جیسے مقدس پیشے سے الگ کیسے رہ سکتے تھے؟ آپ کے چچا ابو طالب بھی تاجر تھے اور تجارت کے لئے دور دراز کے سفر اختیار کیا کرتے تھے۔ دادا کی وفات کے بعد انھوں نے آپکی پرورش کا ذمہ اپنے کندھوں پر اٹھایا اور آپ کو اپنی اولاد سے بڑھ کر محبوب رکھا ۔اسی محبت کی بنا پر آپ کو اپنے ساتھ سفر پر بھی لے جانے لگے۔
    آپ کا پہلا تجارتی سفر:
    نبی کریم کی عمر مبارک 12سال2ماہ ہوچکی تھی کہ آپ کے چچا ابو طالب نے قریش کے قافلۂ تجارت کے ساتھ شام کا ارادہ کیا۔ مصائبِ سفر کے خیال سے ابو طالب کا ارادہ آپ کو ہمراہ لے جانے کا نہ تھا۔ عین روانگی کے وقت آپ کے چہرے پر حزن وملال کے آثار دیکھے اس لئے آپکو اپنے ہمراہ لے لیا اور روانہ ہوئے۔ جب شہر بُصریٰ کے قریب پہنچے تو وہاں ایک نصرانی (بقول بعض یہودی) راہب تھا جس کا نام جرجیس تھا اور بحیرا راہب کے نام سے مشہور تھا۔ بحیرا کی آپ سے ملاقات ہوئی۔ اس نے حضور پر نور اور چہرے پر علاماتِ نبوت دیکھیں اور آپ کو آنے والے نبی کی پیشین گوئی کا مصداق پایا تو ابو طالب کو تاکید کی کہ یہ لڑکا بڑا ہوکر عظیم الشان بنے گا لہٰذا اسے شام کے یہودی دشمنوں سے بچایا جائے چنانچہ ابو طالب نے فی الفور آپ کو مکہ واپس بھیج دیا۔
    کاروباری مشاغل:
      جیسا کہ اوپر گزرا کہ حضور اقدس کا اصلی خاندانی پیشہ تجارت تھا اور آپ بچپن ہی میں ابوطالب کیساتھ کئی بار تجارتی سفر فرما چکے تھے جس سے آپ کو تجارتی لین دین کا کافی تجربہ بھی حاصل ہوچکا تھا اسلئے آپ کو تجارت سے بڑی دلچسپی تھی اور آپ اپنے پیارے چچا ابوطالب کے کندھوں کو جو پہلے سے ہی کثیر العیال تھے مزید گراں بار کرنا نہیں چاہتے تھے اسلئے آپ نے تجار ت کو جاری رکھتے ہوئے ذریعۂ معاش کیلئے اسی پیشہ کو اختیار فرمایا اور تجارت کی غرض سے شام و بصری اور یمن کا سفر فرمایا اور ایسی راست بازی اور امانت و دیانت کیساتھ آپنے تجارت کا کاروبار کیا کہ آپ کے شرکا اور تمام اہل بازار آپ کو امین کے لقب سے پکارنے لگے۔
     ایک کامیاب تاجر کیلئے امانت، سچائی ، وعدے کی پابندی اور خوش اخلاقی تجارت کی جان ہیں۔ ان خصوصیات میں مکہ کے تاجر امین  نے جو تاریخی شاہکار پیش کیا ہے، اس کی مثال تاریخِ عالم میں نادرِ روزگار ہے۔ آپ جلد ہی اپنے اِن اوصاف کی وجہ سے مکہ کے کامیاب ترین تاجر ثابت ہوگئے اور پوری قوم میں آپ کا نام صادق اور امین مشہور ہوگیا۔ آپ کی راست بازی اور حسنِ کردار کا سکہ ہر فردِ بشر کے دل پر بیٹھ گیا اور مکہ کے بڑے بڑے تاجر اور مال دار یہ خواہش کرنے لگے کہ آپ ان کا سرمایہ اپنے ہاتھ میں لے کر ان کے کاروبار چمکائیں۔ آپ کچھ دنوں تک سائب بن قیس مخزومی کے سرمایہ سے تجارت کرتے رہے بلکہ انھوں نے ہی آپ کو’’ تاجرِ امین‘‘ کے لقب سے نوازا۔
    آپ کے کاروبار کا طریقۂ کار:
    آپ ہر معاملہ سچائی اور امانت داری سے کرتے اور ہر معاملے میں سچا وعدہ کرتے اور جو وعدہ کرتے اس کو پورا ہی کرتے۔ آپ کے تجارتی ساتھی عبد اللہ بن ابی الحمساء بیان کرتے ہیں کہ میں نے بعثت سے پہلے ایک بار نبی کریم سے ایک معاملہ کیا ۔میرے ذمے کچھ دینا باقی تھا۔ میں نے عرض کیا کہ میں ابھی لے کر آتا ہوں ۔اتفاق سے گھر جانے کے بعد اپنا وعدہ بھول گیا۔3 روز بعد یاد آیا کہ میں آپ سے واپسی کا وعدہ کرکے آیا تھا۔یاد آتے ہی فورا ًآپ کے مکان پر پہنچا معلوم ہوا کہ2 روز گزرگئے، آج تیسرا دن ہے وہ مکان پر نہیں آئے۔ گھر والے خود پریشان ہیں۔ میں یہاں سے روانہ ہوا اور جہاں جہاں خیال تھا، سب جگہ آپ کو تلاش کیا، کہیں نہیں ملے تو احتیاطاً وعدہ گاہ پر پہنچا تو میر ی حیرت کی انتہا نہ رہی جب دیکھا کہ آپ اسی مقام پر موجود ہیں اور میرا انتظار کررہے ہیں اور زیادہ حیرت اس بات پر ہوئی کہ مسلسل 3 دن انتظار کی زحمت اٹھانے کے بعد بھی جب میں نے معذرت کی تو آپ صل نہ ناراض ہوئے، نہ لڑائی جھگڑا کیا او رنہ ڈانٹ ڈپٹ کی، صرف اتنا کہہ کر خاموش ہوگئے اور وہ بھی دھیمی آواز میں ’’یَا فَتٰی! لَقَدْ شَقَقْتَ عَلَیَّ انَا ہٰہُنَا مُنْذُ ثَلَاثٍ اَنْتَظِرُکَ‘‘(سنن ابی دائود)کہ ارے بھائی! تُونے مجھے زحمت دی، میں 3 دن سے اسی جگہ تمہارا انتظار کررہاہوں(ماخوذ از سیرۃ المصطفیٰ   و  سیرۃ النبی )۔
    تجارت کے کاروبار میں آپ اپنا معاملہ ہمیشہ صاف رکھتے تھے۔سیدنا عبد اللہ بن سائبؓ  فرماتے ہیں کہ میں زمانۂ جاہلیت میں رسول اللہ کا شریکِ تجارت تھا۔ جب مدینہ منورہ حاضرہوا تو آپ نے فرمایا کہ مجھ کو پہچانتے بھی ہو؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں!آپتو میرے شریک تجارت تھے اور کیا ہی اچھے شریک۔ نہ کسی بات کو ٹالتے تھے اور نہ کسی بات پر جھگڑتے تھے (سیرۃ المصطفیٰ)۔
    سیدنا ؒؒقیس بن سائب مخزومیؓ  فرماتے ہیں کہ زمانۂ جاہلیت میں رسول اللہ میرے شریک تجارت تھے۔آپ بہترین شریکِ تجارت تھے، نہ جھگڑتے تھے اور نہ کسی قسم کا مناقشہ کرتے تھے (سیرۃ المصطفیٰ)۔
    آپ کے کاروبار کے ایک ساتھی کا نام ابو بکر تھا۔وہ بھی مکہ ہی میں قریش کے ایک سوداگر تھے۔ وہ کبھی کبھی سفر میں آپ کے ساتھ رہتے تھے(سیرۃ النبی)۔
    عرب میں ہر سال جو مشہور تجارتی میلے منعقد ہوتے،ان میں حضور بھی اپنا سامانِ تجارت لے جایا کرتے۔آپ کی دیانت داری کی بنا پر آپ کا سامان میلے میں آتے ہی ہاتھوں ہاتھ بک جاتا۔ ایک بارایک میلے میں آپ20 اونٹ لائے مگر اسی وقت کسی کام سے باہر جانا پڑ گیا تو اپنے غلام کو تاکید کرگئے کہ ان اونٹوں میں سے ایک لنگڑا ہے، اس کی نصف قیمت وصول کی جائے۔ کام سے فارغ ہوکر آپ واپس تشریف لائے تو اونٹ فروخت ہوچکے تھے۔ غلام سے دریافت کیاتو اس نے معذرت کی کہ مجھے خریداروں کو لنگڑے اونٹ کی بابت بتانا یاد نہ رہا اور میں نے اس کی بھی پوری قیمت وصول کرلی۔ آپنے خریداروں کاپَتا دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ وہ یمن کی طرف سے آئے تھے۔ آپ کو اس واقعے پر بڑا ملال تھا۔ فوراً غلام کو ساتھ لیا اور گھوڑے پر سوار ہوکر ان کی تلاش میں چل دئیے۔ ایک دن اور ایک رات کی مسافت طے کرنے کے بعد ان کو پالیا اور ان سے پوچھا کہ تم نے یہ اونٹ کہاں سے خریدے ہیں۔ وہ بولے کہ ہمارے مالک نے ہمیں یمن سے میلے میں محمد بن عبد اللہ کے تمام اونٹ خریدنے کیلئے بھیجا تھا اور تاکید کی تھی کہ اسکے سوا کسی اور سے کچھ سامان نہ خریدنا۔ہم وہاں3 دن تک محمد() کے مال کو تلاش کرتے رہے، آخر 3  دن کے بعد ان کا مال منڈی میں آیا تو ہم نے اطلاع پاتے ہی خرید لیا'آپ نے فرمایا :بھائیو ! ان اونٹوں میں سے ایک اونٹ لنگڑا ہے، سوادا کرتے ہوئے میرا ملازم بتانا بھول گیا، اب وہ اونٹ مجھے دے دو اور اس کی قیمت واپس لے لو، یا پھر اس کی آدھی قیمت مجھ سے وصول کر لو۔ اتفاق سے ابھی تک انہیں اونٹ کے لنگڑے پن کا علم نہ ہوا تھا مگر آپ نے وہ اونٹ دیکھتے ہی فورا ًپہچان لیا او روہ اونٹ ان سے لے کر اس کی قیمت واپس کردی۔ بعد میں جب آپنے اعلانِ نبوت فرمایا تو انھوں نے کہا ہم تو پہلے ہی سوچتے تھے کہ ایسا شخص کوئی معمولی آدمی نہیں ہوسکتا، فوراً خدمتِ اقدس میں پہنچے اور شرفِ اسلام سے بہرہ مند ہوگئے ۔
    ان واقعات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ نے بیرون تجارت میں بھی حصہ لیا اور آپ مکہ میں گھوم پھرکر بھی کاروبار کیا کرتے تھے۔
    الغرض ابو طالب کے ساتھ آپ بچپن ہی میں بعض تجارتی سفر کرچکے تھے۔ ہر قسم کا تجربہ حاصل ہوچکا تھا اور آپکے حسنِ معاملہ کی شہرت ہر طرف پھیل چکی تھی۔ نوخیز و نوجوان محمد گلہ بانی سے آگے بڑھ کر میدانِ تجارت میں آئے تو آپ کے تعلقات وسیع ہوئے۔ لوگوں کو آپ کو آزمانے اور پرکھنے کا موقع ملا مگر یہ حقیقت ہے کہ جن لوگوں نے آپ کو زیادہ قریب سے دیکھا وہی آپ کے سب سے زیادہ گرویدہ ہوئے اور ایک عجیب بات یہ ہے کہ صرف 12,10سال کے عرصے میں آپکی غیر معمولی امانت داری، راست بازی اور سچائی نے سب ہی مکہ والوں کو یہاں تک موہ لیا کہ وہ آپ کا نام لینا بے ادبی سمجھنے لگے۔ یہی مکہ کے بڑے بڑے تاجر اور سیٹھ جن کو اپنی دولت پرناز تھا، جن کو اپنے بین الاقوامی تعلقات پر فخر تھا کہ ان کے تجارتی قافلے شام، یمن اور فارس وغیرہ جاتے ہیں، افریقہ کے بازاروں میں ان کا لین دین ہوتا ہے، ان ملکوں کے امیروں اور بادشاہوں سے ان کی راہ و رسم ہے، ان سے اپنی بات منواسکتے ہیں، یہی رؤسائے قریش جو اپنے سوا کسی کو نظر میں نہیں لاتے تھے، جو دوسروں کی گردنیں اپنے سامنے جھکوانا چاہتے تھے، جن کے مشاعروں کی جان ان کے وہ فخریہ قصیدے ہوا کرتے تھے، جن میں وہ اپنی عظمت اور بڑائی کے ترانے گاتے اور کوئی ان کا توڑ کرتا تو لڑ پڑتے تھے، یہاں تک کہ خوں ریز جنگ کی نوبت آجاتی تھی،دنیا جانتی ہے، تاریخ شاہد ہے کہ یتیمِ عبد اللہ کی غیر معمولی سچائی اور امانت داری نے ان سیٹھوں اور رئیسوں کو اس حد تک متاثر اور گرویدہ بنادیا تھا کہ وہ آپ کو ’’الصادق الامین‘‘ ہی کہتے تھے، نام لینا بے ادبی سمجھتے تھے۔یہ 2لفظ یہاں تک زبانوں پر چڑھ گئے کہ انھوں نے قومی لقب کی حیثیت اختیار کرلی۔
    آپ کا شام کا دوسرا سفروسیدہ خدیجہؓ سے نکاح:
    اُن دنوں مکہ میں سب سے زیادہ مال دار ایک معزز خاتون سیدہ خدیجہ بنت خویلدؓ تھیں، جو2بار بیوہ ہوچکی تھیں۔انھوں نے باپ سے کثیر جائداد پائی تھی اور اب تمام تر توجہ تجارت کی طرف مبذول کر رکھی تھی او راپنی تجارت کو باقی رکھنے کیلئے انھیں کسی ایسے امانت دار شخص کی ضرورت تھی جو کاروباری سلیقہ اور تجارتی تجربہ بھی رکھتا ہو۔ آں حضرت کی عمر اگرچہ تقریبا23سال تھی مگر آپکے اوصافِ حمیدہ کے چرچے شروع ہوگئے تھے۔کاروباری سلیقے کی بھی شہرت ہو چکی تھی اور تجارتی قافلے کے ساتھ شام جاکر بیرونی تجارت کا بھی آپکو تجربہ ہوچکاتھا تو سیدہ خدیجہؓ نے خواہش ظاہر کی کہ حضور ان کا سامانِ تجارت سرزمینِ شام کی طرف لیجائیں او رمعاملہ یہ طے ہوا کہ وہ آپ کو دوسرے لوگوں کی بہ نسبت 2گنا منافع دیں گی۔ آپنے اپنے چچا ابوطالب سے مشورہ کرنے کے بعد یہ پیش کش قبول فرمالی او ر23یا 24برس کی عمر میں دوسری بار شام کی طرف روانہ ہوئے۔ واپسی پر آپ نے ایسا مال تلاش کیا جس کا مکہ میں فوراً نکاس ہوجائے۔آپ نے شام سے یہ مال لاکر مکہ معظمہ میں فروخت کیا تو کافی نفع ہوا۔ حضرت خدیجہؓ نے شام جاتے وقت جب مال سپرد کیا تو اپنے بھروسے مند غلام میسرہ کو بھی ساتھ کردیا۔ بہانہ یہ تھا کہ وہ خدمت کرتے رہیں گے اور مقصد یہ تھا کہ مال کی نگرانی بھی رکھیں او رحضورکے عادات واخلاق کا بھی گہرائی سے مطالعہ کرتے رہیں۔ سفر شام سے واپسی پر حضورنے مال کا نفع حضرت خدیجہؓ کے سپرد کیا اور غلام میسرہ نے نہ صرف امانت داری بلکہ آپکے عام اخلاق کی بھی ایسی تعریف کی کہ سیدہ خدیجہؓ  جو اپنی زندگی کا یہ آخری دور کسی راست باز کے حوالے کرنا چاہتی تھیں دامانِ محمد میں ان کو گوہرِ مراد نظر آنے لگاچنانچہ سفرِ شام سے واپسی کے 2 ماہ 25 روز بعد حضرت خدیجہؓ نے آپ کو نکاح کا پیام دیا۔ آپ نے اپنے چچا کے مشورے سے اس کو قبول فرمایا اور25برس کی عمر میں اپنے سے 15برس بڑی اور2 بار بیوہ ہوچکی خاتون کے ساتھ نکاح کیا۔
    نکاح کے بعد حضرت خدیجہؓ نے اپنا مال حضور کے قدموں پر نچھاور کردیا مگر آپنے ان کا سارا مال غریبوں، بیواؤں اور یتیموں کی امداد پر صرف کردیا او راپنی معاش تجارت کو باقی رکھا۔ اسی سے اپنے کنبے کی گزر بسر کرتے رہے۔تجارت کی خاطر آپ نے بصری اور مدینہ کی جانب کئی تجارتی سفر کیے او رانہی سفروں کے درمیان آپ قریش کی تجارتی شاہراہوں کے ہر پیچ و خم سے آگاہ ہوگئے، خصوصاً مدینہ کی سیاسی او رجغرافیائی حیثیت اچھی طرح سمجھ لی۔
     چند ارشادات نبویؐ او رنقل کردینا مناسب سمجھتا ہوں جن سے تجارت او رتجارت پیشہ لوگوں کی عظمت واضح ہو نیز تجارت میں امت کے لئے آپ کا مقرر کردہ اصول بھی سامنے آسکے:
    رسول اللہ سے ایک بار سوال کیا گیا کہ کون سی کمائی پاکیزہ ترین ہے؟ فرمایا: اپنے ہاتھوں سے کام کرنا او رہر حلال وجائز خرید وفروخت(السنن الکبری للبیہقی )۔
    تجارت میں حسنِ معاملہ، صداقت ودیانت او رراست بازی کی آپ ہردم تاکید ی نصیحت فرماتے رہے، فرمایا: قیامت کے روز تاجر فجار کی حیثیت سے اٹھائے جائیں گے بجز اُس تاجر کے جو اپنے معاملات میں خداترس رہا ہو، لوگوں سے حسنِ سلوک کیا ہو اور ہرمعاملے میں سچائی کا دامن تھامے رکھاہو (ترمذی )۔اسی طرح فرمایا: امانت دار اور راست باز تاجر قیامت کے دن صدیقوں او رشہیدوں کے ساتھ اٹھایا جائے گا (ترمذی)۔آپنے بیع میں زیادہ قسمیں کھانے سے منع فرمایا : بیع میں زیادہ قسمیں کھانے سے احتیاط برتوکیونکہ اس طرح مال تو بک جاتا ہے مگر برکت جاتی رہتی ہے (مسلم )۔
    آخری بات یہ ہے کہ بیع کرنے والوں کا سب سے پہلے آپ نے ’’تاجر‘‘ نام رکھا۔ پہلے انھیں ’’سماسِر‘‘ کہا جاتا تھا اور اس نئے نام کو تمام لوگوں نے بہت پسند کیا


Comments

Popular posts from this blog