موت کیا ہے؟What is death?ما هو الموت؟

 موت کیا ہے؟

What is death?

ما هو الموت؟


موت کیا ہے؟
حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا  :
إن العبد المؤمن إذا کان في انقطاع من الدنیا و إقبال علی الأخرۃ نزل إلیہ ملائکۃ من السماء بیض الوجوہ، کأن وجوہہم الشمس معہم أکفان من أکفان الجنۃ و حنوط من حنوط الجنۃ حتی یجلسوا منہ مد البصر، ثم یجيء ملک الموت یجلس عند رأسہ فیقول: أیتہا النفس المطمئنۃ أخرجي إلی مغفرۃ من اللّٰہ و رضوان فتخرج تسیل کما تسیل القطرۃ من السقاء، و إن کنتم ترون غیر ذلک فیخرجونہا فإذا أخرجوہا لم یدعوہا في یدہ طرفۃ عین، فیجعلونہا في تلک الأکفان و الحنوط و یخرج منہا کأطیب نفحۃ مسک علی وجہ الأرض، فیصعدون بہا فلا یمرون علی ملأ من الملائکۃ إلا قالوا: ما ہٰذہ الروح الطیبۃ؟ فیقولون: فلان بن فلان بأحسن أسمائہ التي کانوا یسمونہ بہا في الدنیا حتی ینتہوا بہ إلی السماء التي تلیہا حتی یتنہي بہا إلی السماء السابعۃ، فیقول اللّٰہ تعالیٰ: اکتبوا کتابہ في علیین و أعیدوہ إلی الأرض، فیعاد روحہ في جسدہ فیأتیہ ملکان فیجلسان فیقولان لہ: من ربک و ما دینک؟ فیقول: اللّٰہ ربي و الإسلام دیني، فیقولان لہ: ما ہٰذا الرجل الذي بعث إلیکم و فیکم؟ فیقول: ہو رسول اللّٰہ ، فیقولان لہ: و ما علمک؟ فیقول قرأت کتاب اللّٰہ تعالیٰ و آمنت بہ و صدقتہ، فینادي مناد من السماء أن صدق عبدي، فافرشوا لہ من الجنۃ، و ألبسوہ من الجنۃ، وافتحوا لہ باباً إلی الجنۃ، فیأتیہ من ریحہا و طیبہا و یفسح لہ في قبرہ مد بصرہ، و یأتیہ رجل حسن الثیاب طیب الرائحۃ فیقول لہ: أبشر بالذي یسرک ہٰذا یومک الذي کنت توعد، فیقول لہ: من أنت فوجہک یجيء بالخیر؟ فیقول: أنا عملک الصالح، فیقول: رب أقم الساعۃ رب أقم الساعۃ، حتی أرجع إلی أہلي و مالي۔  (۹)
یعنی بندۂ مومن کے اِس دنیاسے چل چلاؤ کا جب وقت آ جاتا ہے اور وہ سفر آخرت پر روانہ ہونے کے لیے تیار ہو جاتا ہے تو آسمان سے آفتاب کی مانند درخشاں  چہروں  والے فرشتے اپنے ساتھ دو جنتی کفن، اور بہشتی خوشبو لے کراس کے پاس آتے ہیں ،اور ایک لمحہ کے لیے اس کے پاس بیٹھتے ہیں۔ پھر ملک الموت آ کر اس کے سرہانے بیٹھتے ہیں  اور کہتے ہیں :اے اطمینان پا جانے والی جان! اللہ کی مغفرت و رضوان کی طرف نکل چل۔ تو وہ مشک سے رِستے ہوئے پانی کی طرح رِستی ہوئی نکلتی ہے۔ اگر تم ان فرشتوں  کو اس مرنے والے کے سوا دیکھو تو انھیں  نکال دو۔پھر وہ روح کو نکال لیتے ہیں ، نکلنے کے بعد پلک جھپکنے کے برابر وہ ان کے ہاتھوں  میں  ہوتی ہے،اور خوشبو لگا کروہ اس کی تکفین کرتے ہیں ، اب اس سے ایسی خوشبو پھوٹتی ہے کہ شاید پورے روئے زمین پر کہیں  ایسی خوشبو کا وجود نہ ہو۔ پھر اسے اوپر لے جاتے ہیں۔  اب فرشتوں  کے جس گروہ سے گزرتے ہیں وہ پوچھ اُٹھتے ہیں : یہ بھینی سہانی خوشبو کیسی ہے؟تو وہ نہایت ہی ادب و احترام کے ساتھ دنیا میں  اس کے پکارے جانے والے نام کو لے کر فرماتے ہیں  کہ فلاں  بن فلاں  ہے۔یہاں  تک کہ وہ اسے لے کر آسمان پراور پھر وہاں  سے ساتویں  آسمان پر پہنچ جاتے ہیں۔  اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے: اس کا نامہ اعمال علیین میں  لکھ کر اِسے زمین کی طرف لوٹا دو،اس طرح اُس کی روح دوبارہ اس کے بدن میں  لوٹا دی جاتی ہے۔
اب اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں  اور اسے بٹھا کر پوچھتے ہیں : تیرا رب کون ہے؟ اور تیرا دین کیا ہے؟تو وہ کہتا ہے: اللہ میرا رب ہے۔اور اسلام میرا دین ہے۔ فرشتے پوچھتے ہیں :اِس’ شخص‘ کے بارے میں  تمہاری کیا رائے ہے جو تمہاری طرف مبعوث ہوا تھا؟وہ کہتا ہے: یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں۔  فرشتے پوچھتے ہیں : تمہیں یہ کس طرح علم ہوا؟ وہ کہتا ہے: ہاں  میں  نے کتاب اللہ پڑھی ،اس پر ایمان لایا اور اس کی تصدیق کی۔ اب آسمان کی بلندیوں  سے یہ ندا آئے گی کہ میرے بندے نے سچ کہا۔ اس کے لیے جنتی فرش بچھا دو، اسے بہشتی جوڑے پہنا دو،اوراس کے لیے جنت کو جاتا ہوا ایک راستہ کھول دو، تاکہ اسے جنت کی ہوا و خوشبو ملتی رہے۔ اور پھر تا حد نظر اس کی قبروسیع کر دی جاتی ہے۔پھر اس کے پاس خوشبوؤں  میں  بساہوا ایک خوش پوش شخص آ کر کہتا ہے: اب جیسے چاہو خوشیاں  مناؤ۔ یہی وہ دِن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا رہا تھا۔ وہ پوچھتا ہے: -اللہ تمہیں  سدا خوش رکھے -یہ تو بتاؤ تم ہو کون؟وہ کہتا ہے: میں  تمہارا نیک عمل ہوں۔ (یہ سن کروہ) پکار اُٹھتا ہے: اے پروردگار! قیامت برپا  فرما دے۔اے پروردگار! قیامت بپا کر دے تاکہ میں  اپنے انجام کو پہنچ سکوں۔
حضرت ابن ابی الدنیا رضی اللہ تعالیٰ عنہ مرفوعاً تخریج کرتے ہوئے فرماتے ہیں   :
إن المؤمن إذا احتضر و رأی ما أعد اللّٰہ لہ جعل یتہوع نفسہ من الحرص علی أن تخرج فہناک أحب لقاء اللّٰہ و أحب اللّٰہ لقاء ہ، و إن الکافر إذا احتضر و رأی ما أعد لہ جعل یتبلع نفسہ کراہیۃ أن تخرج، فہناک کرہ لقاء اللّٰہ و کرہ اللّٰہ لقاء ہ۔
یعنی جب مومن کے (اس دنیا سے )چل چلاؤ کا وقت آ پہنچتا ہے اور وہ اپنے لیے اللہ کی تیار کردہ چیزوں  کو(سرکی آنکھوں سے) دیکھ لیتا ہے تو وہ (یہاں  سے جلد از جلد) نکلنے کی جی توڑ کوشش کرتا ہے،کیوں  کہ وہ اللہ سے ملاقات کے شوق میں  بے تاب ہوتا ہے اور اللہ اس سے ملنے کا مشتاق ہوتا ہے۔ اور جب کسی کافر کی موت کا وقت آتا ہے اور وہ اپنے لیے تیار کردہ چیزوں  کو دیکھتا ہے تواس کا جی (یہاں  سے کسی طور) نکلنے کو تیار نہیں  ہوتا،کیوں  کہ وہ (اپنے برے کرتوت کے باعث) اَللہ سے ملنا پسند نہیں  کرتا اور نہ اللہ ہی اس سے ملناپسندفرماتا ہے۔
حضرت جعفر بن محمد اپنے باپ سے، وہ اِبن الخزرجی سے اور وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں  کہ میں  نے رسولِ اکرم نورِ مجسم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کواس وقت یہ فرماتے ہوئے سنا جب کہ آپ نے ملک الموت کو ایک انصاری شخص کے سرہانے بیٹھے ہوئے دیکھا  :
یا ملک الموت ارفق بصاحبي فإنہ مؤمن، فقال ملک الموت: طب نفساً و قر عیناً و اعلم أني بکل مؤمن رفیق۔
یعنی اے ملک الموت! میرے اس صحابی سے نرمی و مہربانی کے ساتھ پیش آ، کیوں  کہ اس کا دل نورِ ایمان سے منور ہے۔ ملک الموت نے عرض کیا: اللہ آپ کو خوش رکھے،اور آپ کی چشمانِ مبارک ٹھنڈی رہیں۔  آپ کواِس بات کا علم الیقین کر لینا چاہیے کہ میں  ہر مومن سے رفاقت رکھتا ہوں  اور اس کے ساتھ مہربانی ہی کا معاملہ کرتا ہوں۔
حضرت کعب سے مروی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ملک الموت سے کہا:مجھے تم اپنی وہ شکل دِکھاؤجس میں  تم کسی مومن کی روح قبض کرنے جاتے ہو، چنانچہ ملک الموت نہایت دلکش و پرکشش انداز میں  ان کے سامنے جلوہ کناں  ہوئے۔(یہ دیکھ کر حضرت ابراہیم نے )فرمایا  :
لو لم یر المؤمن عند موتہ من قرۃ العین و الکرامۃ إلا صورتک ہٰذہ لکانت تکفیہ۔
یعنی ایک مومن اگر اپنی جانکنی کے عالم میں  دیدہ و دل کو تسکین فراہم کرنے والی اور کوئی عزت و کرامت نہ بھی دیکھے، صرف آپ کو اِس صورت میں  دیکھ لے تو یہ اس کے لیے کافی ہو گی (اسے مزیدکسی چیز کی حاجت نہ رہے گی)۔
حضرت ضحاک فرماتے ہیں   :
إذا قبض روح العبد المؤمن عرج بہ إلی السماء فینطلق معہ المقربون، ثم عرج بہ إلی الثانیۃ، ثم إلی الثالثۃ، ثم إلی الرابعۃ، ثم إلی الخامسۃ، ثم إلی السادسۃ، ثم إلی السابعۃ حتی ینتہوا بہ إلی سدرۃ المنتہیٰ فیقولون: ربنا عبدک فلان، وہو أعلم بہ ، فیأتیہ صک مختوما بأمانہ من العذاب فذلک قولہ تعالیٰ: کَلاَّ إنَّ الأبْرَارَ لَفِي عِلِّیِّیْنَ، وَ مَا أدْرَاکَ مَا عِلِّیُّونَ، کِتَابٌ مَرْقُومٌ یَشْہَدُہُ المُقَرَّبُونَ o (سورۂ مطففین: ۸۳؍ ۱۹تا۲۱)
یعنی جب کسی بندۂ مومن کی روح قبض کی جاتی ہے تو اللہ کے مقرب فرشتے اسے اپنی جلو میں  لے کر اوپر جاتے ہیں۔ چنانچہ وہ دوسرے آسمان پر پہنچتے ہیں ، پھرتیسرے پر،پھر چوتھے پر، پھر پانچویں  پر، پھر چھٹویں  پر ، پھر ساتویں  پر حتیٰ کہ وہ اسے لے کر سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچ جاتے ہیں  اور عرض کرتے ہیں : اے پروردگار! تیرے فلاں  بندہ (کی روح) حاضر ہے-حالاں  کہ اللہ اس سے اچھی طرف واقف ہوتا ہے-پھر عذاب سے رہائی کا ایک سربہ مہر نامہ اس کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔یہی مطلب ہے اِس اِرشادِ الٰہی کا : یہ(بھی) حق ہے کہ بے شک نیکوکاروں  کا نوشتہ اعمال علیین(یعنی دیوان خانہ جنت )میں  ہے۔اور آپ نے کیا جانا کہ علیین کیا ہے؟یہ (جنت کے اعلیٰ درجہ میں  اس بڑے دیوان کے اندر) لکھی ہوئی (ایک) کتاب ہے (جس میں  ان جنتیوں  کے نام اور اعمال درج ہیں  جنھیں  اعلیٰ مقامات دیے جائیں  گے)۔اس جگہ (اللہ کے) مقرب فرشتے حاضر رہتے ہیں۔
حضرت ابوسعید خدری سے مروی کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا  :
إن المؤمن إذا کان في إقبال من الآخرۃ، و إدبار من الدنیا نزل ملائکۃ من السماء کأنہم وجوہہم الشمس بکفنہ و حنوطہ من الجنۃ، فیقعدون حیث ینظر إلیہم، فإذا خرجت روحہ صلی علیہ کل ملک من السماء و الأرض۔  (۱۰)
یعنی ایک مردِ مومن جب دنیا کو پیٹھ دِکھا کرسفرآخرت کے لیے آمادہ ہوتا ہے تو اس وقت آفتاب صورت فرشتے آسمان سے جنتی خوشبو و کفن لے کر اُترتے ہیں ، اوراس کے پاس آ کر اس طرح بیٹھتے ہیں  کہ وہ مردِ مومن انھیں  دیکھ رہا ہوتا ہے۔ پھر جب اس کی روح نکلتی ہے تو زمین وآسمان کے سارے فرشتے اس کے لیے خیر و عافیت نزولِ رحمت اور ترقیِ درجات کی دعائیں  کرتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں  کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا  :
إن المؤمن إذا قبض أتتہ ملائکۃ الرحمۃ بحریرۃ بیضاء فتخرج کالطیب و أطیب من ریح المسک حتی إنہ یناولہ بعضہم بعضا فیسمونہ بأحسن الأسماء لہ حتی یأتوا بہ باب السماء فیقولون: ما ہٰذہ الریح التي جاء ت من الأرض؟ و کلما أتو سماء قالوا مثل ذلک حتی یأتوا بہ أرواح المؤمنین فلم یکن لہم فرح أفرح من أحدہم عند لقائہ، و لا قدم علی أحد کما قدم علیہم، فیسألونہ ما فعل فلان بن فلاں  ؟ فیقولون : دعوہ حتی یستریح فإنہ کان في غم الدنیا۔ (۱۱)
یعنی جب کسی بندۂ مومن کی روح قبض ہوتی ہے تو اس کے پاس فرشتگانِ رحمت سفیدریشمی جوڑے میں  حاضر ہوتے ہیں ، (اس مومن کی) روح (اس کے جسدخاکی) سے نکلتے وقت بوئے مشک سے کہیں  زیادہ خوشبودار ہوتی ہے، پھر فرشتے روح کی ایک دوسرے سے ملاقات کراتے ہیں  اور بہترین ناموں  کے ساتھ تعارف کراتے ہیں۔  پھر اسے لے کر وہ آسمانِ اول پر پہنچتے ہیں جہاں  ان سے پوچھا جاتا ہے کہ آج زمین سے یہ کیسی بھینی بھینی خوشبو آ رہی ہے؟اسی طرح وہ جس آسمان پر بھی پہنچتے ہیں  کچھ یہی سوال ہوتا ہے۔یہاں  تک کہ اسے لے کر مومنوں  کی روحوں  کے پاس جا پہنچتے ہیں۔  روحیں  اس سے مل کر اس قدر خوش ہوتی ہیں  کہ شاید ہی کسی اور چیزسے کبھی انھیں  اتنی خوشی محسوس ہوئی ہو،اور جس طرح وہ اس کا خیرمقدم کرتی ہیں  شاید کسی اور کا ایسا کبھی خیرمقدم کیا ہو۔ اب وہ روحیں  اس سے پوچھتی ہیں  کہ ذرا بتاؤ فلاں  بن فلاں  کیسا تھا، کیا کر رہا تھا؟ تو وہ کہتی ہے:اسے بلایا گیا اور اس نے دنیا کے غموں  سے سلامتی کے ساتھ جانے پر خوشی کا اِظہار کیا۔تو فرشتے کہتے ہیں : اسے ذرا مہلت دو کہ کچھ آرام کر لے کیوں  کہ یہ روح دنیا کے غم کدے سے آ رہی ہے۔
حضرت براء بن عازب حضرت ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں  کہ سرکارِ ابد قرار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا  :
إن المؤمن إذا احتضر أتتہ الملائکۃ بحریرۃ فیہا مسک و عنبر و ریحان فتسل روحہ کما تسل الشعرۃ من العجین، و یقال: ٰأیتہا النفس المطمئنۃ اخرجي راضیۃ مرضیا علیک إلی رَوح اللّٰہ و کرامتہ، فإذا خرجت روحہ وضعت علی ذلک المسک و الریحان و طویت علیہ الحریرۃ و ذہب بہ إلی علیین۔  (۱۲)
یعنی جب بندۂ مومن کی زندگی کا چراغ گل ہونے کے قریب ہوتا ہے تو اس کے پاس فرشتے ایک ریشمی ٹکڑے میں  مشک و عنبر اور روحانی رزق واستراحت (کا سامان) لے کر حاضر ہوتے ہیں ،پس اس کی روح ایسے ہی (آسانی کے ساتھ) نکل جاتی ہے جس طرح بال گندھے ہوئے آٹے سے نکل جاتا ہے۔ اور پھر اس سے کہا جاتا ہے: اے اطمینان پا جانے والے نفس! تو اپنے رب کی رحمت و کرامت کی طرف اس حال میں  نکل کہ تو اس کی رضا کا طالب بھی ہو اور اس کا مطلوب بھی۔ جب اس کی روح نکل جاتی ہے تو اس کے اوپر مشک و ریحان کو چھڑک دیا جاتا ہے اور پھر اسے ریشم کے ٹکڑے میں  لپیٹ کر علیین میں  بھیج دیا جاتا ہے۔
حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ’’وَ السَّابِحَاتِ سَبْحاً‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا  :
أرواح المؤمنین لما عاینت ملک الموت قال: اخرجي أیتہا النفس المطمئنۃ إلی روح و ریحان و رب غیر غضبان، سبحت سبح الغائض في الماء فرحا و شوقا إلی الجنۃ (فَالسَّابِقَاتِ سَبْقاً) یعني تمشي إلی کرامۃ اللّٰہ عزوجل۔
یعنی ملک الموت جب مومنوں  کی روحوں  کو دیکھتے ہیں  تو فرماتے ہیں : اے اطمینان پا جانے والی جان!اب تو سرورو فرحت ، روحانی رزق واستراحت اور راضی رب کی طرف نکل چل،کیوں  کہ تو نے غرق آب ہونے والے کی طرح جنت پانے کی لگن اور اپنے رب سے ملاقات کے شوق میں  ڈوب کر عبادت و بندگی کی ہے۔’’فالسابقات سبقاً‘‘ تواب چل آگے بڑھ اور اللہ کی عزت و کرامت (میں  حصہ بٹا نے میں  سبقت مار لے جا)۔
حضرت عبید اللہ بن عمرو فرماتے ہیں  کہ جب اللہ تعالیٰ کسی پر موت طاری کرتا ہے تو اس کے پاس دو فرشتوں کو بہشتی خوشبو  اور حلہ لے کر بھیجتا ہے،وہ کہتے ہیں : اے اطمینان پا جانے والی جان! چل سرورو فرحت ، روحانی رزق واستراحت اور راضی رب کی طرف نکل چل۔ چل دیکھ تو نے کتنے اچھے اعمال آگے بھیج رکھے ہیں۔  تو وہ روح مشک سے کہیں  زیادہ خوشبودار شکل میں  (جسدخاکی سے )نکلے گی۔ 
( جب اوپر جائے گی تو)آسمان کے کناروں  پر کھڑے فرشتے کہیں  گے :واہ سبحان اللہ! آج ہمیں  زمین سے کتنی پیاری خوشبو محسوس ہوئی ہے، اب وہ جس دروازے سے بھی گزرے گی وہ کھلتا چلا جائے گا، اور ہر فرشتہ اس کو دعائیں  دے رہا ہو گا،اسی طرح وہ فرشتوں کی مشایعت میں  چلتی چلتی حضورِ اِلٰہ میں  جا پہنچے گی، فرشتے حق تعالیٰ کے آگے سجدے میں  گر کر عرض کریں گے: مولا! یہ تیرا فلاں  بندہ ہے جس کی روح ہم نے قبض کر لی ہے اور اس کا تجھے پورا پورا علم بھی ہے، تو اللہ فرمائے گا : اسے سجدہ کرنے کے لیے کہو چنانچہ وہ روح سجدے میں  گر پڑے گی۔
پھر حضرت میکائیل کو بلا کر کہا جائے گا: اس روح کو مومنوں  کی روحوں  میں  شامل کر لو،اور قیامت کے دن تم سے اس کی بابت پوچھا جائے گا۔پھر اس کی قبر کے لیے (خصوصی )حکم جاری ہو گا تو وہ طول و عرض میں  سترسترگز پھیل کر کشادہ ہو جائے گی۔ پھراس میں  ریشم و دیبا بچھایا جائے گا۔اب اگر اس کے پاس قرآن کا کچھ حصہ ہو گا تو وہ قبر میں  روشنی کا کام دے گا ، ورنہ (غیب سے) اُس کے لیے آفتاب کی سی روشنی کا انتظام کر دیا جائے گا۔ پھر جنت کی طرف ایک کھڑکی کھول دی جائے گی جس سے وہ اپنی بہشتی رہائش گاہ کا صبح و شام نظارہ کرتا رہے گا۔
حضرت حسن فرماتے ہیں  کہ جب بندۂ مومن کی قضا آتی ہے تو پانچ سو فرشتے اس کی روح قبض کرنے آتے ہیں ،پھر اس کی روح کو لے کر آسمان دنیا پر پہنچتے ہیں  جہاں  اس کی ملاقات پہلے سے آئی ہوئی مومنوں  کی روحوں  کے ساتھ ہوتی ہے ، وہ روحیں  اس سے کچھ خیرو  خبر معلوم کرنا چاہتی ہیں  مگر فرشتے کہتے ہیں  : اس پر ذرا رحم کرو کیوں  کہ یہ دنیا سے بڑے بڑے درد و کرب سہ کر آ رہی ہے۔ پھر وہ اس سے لوگوں  کے اَحوال پوچھتی ہیں ، تو وہ روح انھیں  ان کے بھائیوں  اور دوستوں  کے بارے میں  خبر دیتے ہوئے کہتی ہے: وہ بالکل ایسے ہی ہیں  جیساتم انھیں  چھوڑ کر آئے تھے۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں  کہ مومن کی روح اس طرح نکلتی ہے کہ وہ مشک سے کہیں  زیادہ پاکیزہ خوشبو میں  بسی ہوتی ہے، پھر فرشتے اسے لے کر اوپر جاتے ہیں  جہاں  کچھ دوسرے آسمانی فرشتے دریافت کرتے ہیں : تمہارے ساتھ یہ کون ہے؟ جواب دیتے ہیں : فلاں اور اس کی حسن کارکردگی اور عمل خیر کی تعریف و توصیف کرتے ہیں۔  
اس پر وہ کہتے ہیں : اللہ تمہیں  اور جو تمہارے ساتھ ہے سلامت رکھے۔ پھر اس کے لیے آسمانی دروازے کھول دیے جاتے ہیں ، یہ فرشتے اسے لے کر اسی دروازے سے چڑھتے ہیں جس میں  اس کا عمل ہوتا ہے چنانچہ اس کا چہرہ چمک اُٹھتا ہے۔پھر جب اسے حق تعالیٰ کی جناب میں  پیش کیا جاتا ہے تو اس کا آفتاب کی مانند چمکتا ہوا چہرہ (اس کے نیکوکار ہونے کی )دلیل کا کام کرتا ہے۔
حضرت ضحاک اِرشادِ باری تعالیٰ ’’وَ الْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں   :
الناس یجہزون بدنہ، والملائکۃ یجہزون روحہ۔
یعنی لوگ مردے کے جسم و بدن کی آرائش و زیبائش میں  مصروف ہیں  حالاں  کہ فرشتے اس کی روح کوسنوارنے نکھارنے میں  لگے ہوئے ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں  کہ مومن کی روح اس وقت تک قبض نہیں  کی جاتی جب تک کہ وہ اس کی کچھ نیک علامتیں  اور آثار نہیں  دیکھ لیتا۔
پھر جب اس کی روح قبض کی جاتی ہے تو ایک آواز پھوٹتی ہے جسے انسان و جنات کے علاوہ گھر کے اندر موجود سارے چھوٹے بڑے جانور اور چوپائے سنتے ہیں کہ مجھے اَرحم الراحمین پروردگار کے پاس جلدی لے کر چلو۔
پھر جب اسے تختے پر رکھا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے :اتنی دیر کیوں  ہے چلتے کیوں  نہیں ؟ پھر جب اسے قبر میں  رکھ دیا جاتا ہے تو(اُٹھانے والے آ کر)اُسے اُٹھاتے ہیں ، پھر وہ جنت میں  اپنی رہائش اور جو کچھ اللہ نے اس کے لیے تیار کر رکھا ہے اس پر نگاہیں  جما لیتا ہے۔ ساتھ ہی اس کی قبر مشک و عنبر،فرحت وسرور اور روحانی رزق واستراحت سے بھر دی جاتی ہے۔
اب وہ عرض کرتا ہے: اے پروردگار! مجھے آگے جانے کی اجازت دے۔ تو اس سے کہا جاتا ہے: تمہارے کچھ بھائی اور بہنیں  ابھی نہیں  پہنچے ہیں ، (ان کے آنے تک) چین کی نیندسوؤتاکہ تمہاری آنکھوں  کو ٹھنڈک نصیب ہو۔
حضرت ابن جریح سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت عائشہ سے فرمایا  :
إذا عاین المؤمن الملائکۃ قالوا نرجعک إلی الدنیا؟ فیقول إلی دار الہموم و الأحزان، قدماني إلی اللّٰہ تعالیٰ۔
یعنی جب فرشتے بندۂ مومن کے پاس (قبر میں  اس کی زیارت کرنے )آتے ہیں  تو کہتے ہیں : کیا دنیا میں  جانا چاہو گے؟تو وہ کہتا ہے: کیا تم حزن و کرب کے گھر میں  (دوبارہ )جانے کی بات کر رہے ہو، (نہیں  بلکہ )مجھے اللہ کی بارگاہ تک پہنچانے کی زحمت کرو۔
حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں   :
تخرج روح المؤمن في ریحانۃ، ثم قرأ ’’فَأمَّا إنْ کَانَ مِنَ المُقَرَّبِینَ فَرَوحٌ وَّ رَیحَانٌ وَّ جَنَّۃُ نَعِیمٍ o(۱۳)
یعنی مومن کی روح پھول اور خوشبو کی شکل میں  نکلتی ہے۔ پھر آپ نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی: پھر اگر وہ (وفات پانے والا) مقربین میں  سے تھا تو (اس کے لیے) سرورو فرحت اور روحانی رزق و استراحت اور نعمتوں  بھری جنت ہے۔
حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشادِ باری تعالیٰ ’’فَرَوحٌ وَّ رَیحَانٌ‘‘ کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ رَوح و ریحان یہ دونوں  بندۂ مومن کی موت کے وقت اسے پیش کی جاتی ہیں۔
حضرت بکر بن عبید اللہ فرماتے ہیں   :
إذا أمر ملک الموت بقبض روح المؤمن أتی بریحان من الجنۃ، فقیل لہ اقبض روحہ فیہ۔
یعنی جب ملک الموت کو کسی بندۂ مومن کی روح قبض کرنے کا حکم ہوتا ہے تو وہ اپنے ساتھ جنت کی خوشبو لے کر آتے ہیں جس میں  وہ اس بندے کی روح قبض کرتے ہیں۔
حضرت ابو عمران الجونی فرماتے ہیں   :
بلغنا أن المؤمن إذا حضِّر أتی بضبائر الریحان من الجنۃ فیجعل روحہ فیہا۔
یعنی ( معتبر ذرائع سے ) ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ جب مردِ مومن کی وفات کا وقت آ پہنچتا ہے تو (فرشتے )جنت سے خوشبوؤں  کا ایک خصوصی گلدستہساتھ لاتے ہیں  تاکہ اس میں  اس کی روح کو محفوظ رکھ سکیں۔
حضرت مجاہد فرماتے ہیں   :
تنزع روح المؤمن في حریرۃ من حریر الجنۃ۔
یعنی بندۂ مومن کی روح جنت کے ریشمی پارچوں  میں  نکالی جاتی ہے۔
حضرت ابوالعالیہ فرماتے ہیں   :
لم یکن أحد من المقربین یفارق الدنیا حتی یؤتی بغصن من ریحان الجنۃ فیشمہ ثم یقبض۔
یعنی جب اللہ کا کوئی مقرب بندہ دُنیاسے رخصت ہونے والا ہوتا ہے تو پہلے اسے گل ہائے جنت کی ٹہنی لاکرسنگھائی جاتی ہے،پھراسی حالت میں  اس کی روح قبض کر لی جاتی ہے۔
حضرت سلمان سے مروی کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا  :
إن أول ما یبشر بہ المؤمن في قبرہ أن یقال لہ: أبشر برضا اللّٰہ و الجنۃ، قدمت خیر مقدم، قد غفر اللّٰہ لمن یشیعک إلی قبرک، و صدق من شہدک، و استجاب لمن یستغفر لک۔
یعنی مومن کو قبر میں  اولین خوش خبری یہ دی جاتی ہے کہ خوش ہو جا اللہ تجھ سے راضی ہے اور جنت تیرا ٹھکانہ ہے۔تو نے بہترین اعمال اپنے آگے بھیجے۔اللہ تعالیٰ نے تیرے جنازے کے ساتھ چلنے والوں کو بخش دیا۔ جو تیرے ساتھ موجود ہے اس کی تصدیق فرماتا اور جو تیری مغفرت مانگے اسے مقبول بناتا ہے۔
حضرت ابن مسعود نے فرمایا  :
إذا أراد اللّٰہ قبض روح المؤمن أوحی إلی ملک الموت أقرئہ مني السلام فإذا جاء ملک الموت یقبض روحہ قالہ لہ: ربک یقرئک السلام۔
یعنی جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کسی بندۂ مومن کی روح قبض کرنے کا ارادہ فرماتا ہے تو ملک الموت کو مطلع فرماتا ہے کہ فلاں  بندہ کو جا کر میری طرف سے سلام و رحمت کہہ دینا۔اب جب ملک الموت اس کے پاس روح قبض کرنے آتے ہیں تواس سے کہتے ہیں : تیرے رب نے تجھے سلام کہا ہے۔
حضرت محمد قرظی فرماتے ہیں   :
إذا استبلغت نفس العبد المؤمن عاد ملک الموت فقال: السلام علیک یا ولي اللّٰہ، اللّٰہ یقرئک السلام، ثم قرأ ہٰذہ الآیۃ : ’’اَلَّذِیْنَ تَتَوَفَّاہُمُ المَلاَئِکَۃُ طَیِّبِیْنَ یَقُولُونَ سَلاَمٌ عَلَیْکُمْ‘‘۔  (۱۴)
یعنی جب بندۂ مومن کی جان مبتلائے مشقت ہوتی ہے تو ملک الموت پہنچتے ہیں  اور (ڈھارس دیتے ہوئے)کہتے ہیں : اے ولی اللہ! تم پر سلام و رحمت ہو۔ اللہ نے تمہیں  سلام کہا ہے۔پھر اس آیت کی تلاوت کی : جن کی روحیں  فرشتے اس حال میں  قبض کرتے ہیں  کہ وہ (نیکی و طاعت کے باعث) پاکیزہ اور خوش و خرم ہوں ،(ان سے فرشتے قبض روح کے وقت ہی کہہ دیتے ہیں :) تم پر سلامتی ہو۔
حضرت مجاہد فرماتے ہیں   :
إن المؤمن لیبشَّر بصلاح ولدہ من بعدہ لتقر عینہ۔
یعنی بندۂ مومن کو اپنے نیکو کار فرزند کی بشارت ہو تاکہ اس کے بعد اس کی آنکھوں  کو وہ ٹھنڈا رکھے۔
حضرت ضحاک فرماتے ہیں  کہ آیت کریمہ’’ لَہُمُ البُشْریٰ فِي الحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَ فِي الآخِرَۃِ‘‘کا معنی یہ ہے کہ انھیں  پتا ہوتا ہے کہ وہ قبل از موت کہاں  ہیں۔
حضرت مجاہد فرماتے ہیں  کہ فرمانِ باری تعالیٰ ’’إنَّ الَّذِیْنَ قَالُوا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ المَلاَئِکَۃُ ألاَّ تَخَافُوا وَ لاَ تَحْزَنُوا وَ أبْشِرُوا بِالجَنَّۃِ الَّتِي کُنْتُمْ تُوعَدُوْنَ‘‘سے موت کا وقت مراد ہے۔
حضرت مجاہد نے آیت کریمہ’’ألاَّ تَخَافُوا وَ لاَ تَحْزَنُوا وَ أبْشِرُوا‘‘کا معنی یہ بیان فرمایا ہے کہ موت اور امورِ آخرت کاسوچ کر بالکل نہ ڈرو۔ اور دنیا میں  جو تم اپنی اہل و اولاد اور دین چھوڑ آئے ہواس کی ایک ذرا فکر نہ کرو، کیوں  کہ ہم ان سب کا تمہیں  نعم البدل عطا فرما دیں  گے۔
حضرت زید بن اسلم فرماتے ہیں  کہ جب کسی بندۂ مومن کو موت آتی ہے تواس سے کہا جاتا ہے: موت سے بالکل نہ گھبراؤ، (یہ سن کر )اُس کا ساراخوف و ہراس ہرن ہو جاتا ہے۔ یوں  ہی اب دنیا اور اپنے اہل و عیال کا بھی کوئی غم نہ کر، اور اپنے جنتی ہونے کا مژدہ سن لے تواس کا یہ ڈر بھی جاتا رہتا ہے۔ اور دنیا کی ایک ذرا فکر نہ کر، اس طرح اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر جاتی ہے اور وعدۂ الٰہی سن کراس کی آنکھیں  ٹھنڈی ہو چکی ہوتی ہیں۔
حضرت حسن سے فرمانِ الٰہی ’’یَا أیَّتُہَا النَّفْسُ المُطْمَئِنَّۃُ ارْجِعِي إلیٰ رَبِّکِ رَاضِیَۃً‘‘کی بابت پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ جب اپنے کسی بندۂ مومن کی روح قبض کرنے کا اِرادہ فرماتا ہے تو وہ روحُ  اللہ سے اور اللہ اس روح سے مطمئن ہو جاتا ہے۔
بیہقی نے ’’المشیخۃ البغدادیۃ‘‘ میں  فرمایا کہ میں  نے ابوسعید اور حسن بن علی واعظ کو ،انھوں  نے محمد بن حسن واعظ کو،انھوں  نے اپنے والد کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں  نے کسی کتاب میں  لکھا دیکھا ہے  :
ان اللّٰہ تعالیٰ یظہر علی کف ملک الموت بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم بخط من نور، ثم یأمرہ أن یبسط کفیہ للعارف في وقت وفاتہ فیریہ تلک الکتابۃ، فإذا رأتہا روح العارف طارت إلیہ في أسرع من طرفۃ العین۔
یعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ ملک الموت کی ہتھیلی پر خط نور سے بسم اللہ الرحمن الرحیم کا نقش اُبھار دیتا ہے پھراُسے حکم دیتا ہے کہ (فلاں ) عارفِ (ربانی کے پاس جاؤ اور) بوقت نزع اپنی ہتھیلی کا یہ نقش کھول کر اسے دِکھا دو۔(کہا جاتا ہے کہ) عارف کی روح جیسے ہی اسے دیکھتی ہے پلک جھپکنے سے بھی پہلے وہ (عالم بالا کو) پرواز کر جاتی ہے۔
حضرت ابن عباس سے مرفوعاً آیا ہے کہ جب اللہ تعالی ملک الموت کو میرے کسی ایسے امتی کی روح قبض کرنے کا حکم صادر فرماتا ہے جس پر جہنم واجب ہو چکی ہوتی ہے تو وہ کہتا ہے: اسے جا کر یہ خوش خبری دینا کہ تم ( اپنے گناہوں  کے مطابق) جہنم میں  اتنی اتنی سزا کے بھگتنے کے بعد جنت میں  داخلے کے مجاز ہو گے۔اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمیشہ رحم و کرم ہی کا معاملہ فرماتا ہے۔

Comments

Popular posts from this blog