قران و حدیث میں مذکورہ پھل The fruit mentioned in the Qur'an and Hadith الثمرة المذكورة في القرآن والحديث

 قران و حدیث میں مذکورہ پھل

 The fruit mentioned in the Qur'an and Hadith

 الثمرة المذكورة في القرآن والحديث


قران و حدیث میں مذکورہ پھل
۔الفاکھۃ۔پھل۔
از
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو۔
منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ
کاہنہ نو لاہور
قران کریم میں کئی مقامات پر پھلوں کا ذکر موجود ہے اہل جنت کی تواضع میں پھلوںکا پیش کیا جانا بھی موجود ہے۔
{ لَهُمْ فِيهَا فَاكِهَةٌ وَلَهُمْ مَا يَدَّعُونَ (57)} [يس: 57]۔
{ مُتَّكِئِينَ فِيهَا يَدْعُونَ فِيهَا بِفَاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ وَشَرَابٍ (51) } [ص: 51، 52]
{ لَكُمْ فِيهَا فَاكِهَةٌ كَثِيرَةٌ مِنْهَا تَأْكُلُونَ (73) } [الزخرف: 73]
{ أُولَئِكَ لَهُمْ رِزْقٌ مَعْلُومٌ (41) فَوَاكِهُ وَهُمْ مُكْرَمُونَ (42) } [الصافات: 41 - 43]
{ وَفَوَاكِهَ مِمَّا يَشْتَهُونَ (42) كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (43) } [المرسلات: 42 - 44]
سابقہ مذکورہ آیات میں مطلق پھولوں کا ذکر کیا گیا ہے کسی پھل کا نام نہیں لیا گیا۔لیکن کچھ مقامات پر پھلوں کے نام بھی ذکر کیئے گئے ہیں۔جیسے انجیر،زیتون،انار انگور۔
{وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ (1) } [التين: 1، 2]
رسول اللہﷺنے کئی باتوں میں پھلوں سے مچالیں  بیان فرمائی ہیں ۔
 انس رضی اللہ عنہ نے اور ان سے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اس مومن کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے ترنج کی سی ہے کہ اس کا مزہ بھی اچھا اور اس کی خوشبو بھی عمدہ ہے اور وہ مومن جو نہیں پڑھتا کھجور کی طرح ہے کہ اس کا مزہ تو اچھا ہے لیکن اس میں خوشبو نہیں اور اس فاسق کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے مردہ کی طرح ہے کہ اس کی خوشبو تو اچھی ہے لیکن اس کا مزہ کڑوا ہے اور جو فاسق قرآن نہیں پڑھتا اس کی مثال اندرائن کی سی ہے کہ اس کا مزہ بھی کڑوا ہے اور کوئی خوشبو بھی نہیں۔“صحيح البخاري (6/ 190)المختصر النصيح في تهذيب الكتاب الجامع الصحيح (4/ 380)
عاصم ابن کلیب نے بیان کیا کہ ان سے ابوبردہ نے بیان کیا کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا «قسي» کیا چیز ہے؟ بتلایا کہ یہ کپڑا تھا جو ہمارے یہاں (حجاز میں) شام یا مصر سے آتا تھا اس پر چوڑی ریشمی دھاریاں پڑی ہوتی تھیں اور اس پر ترنج جیسے نقش و نگار بنے ہوئے تھے اور «ميثرة» زین پوش وہ کپڑا کہلاتا تھا جسے عورتیں ریشم سے اپنے شوہروں کے لیے بناتی تھیں۔ یہ جھالر دار چادر کی طرح ہوتی تھی وہ اسے زرد رنگ سے رنگ دیتی تھیں جیسے اوڑھنے کے رومال ہوتے ہیں اور جریر نے بیان کیا کہ ان سے زید نے بیان کیا کہ «قسية» وہ چوخانے کپڑے ہوتے تھے جو مصر سے منگوائے جاتے تھے اور اس میں ریشم ملا ہوا ہوتا تھا اور «ميثرة» درندوں کے چمڑے کے زین پوش۔ ابوعبداللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ «ميثرة» کی تفسیر میں عاصم کی روایت کثرت طرق اور صحت کے اعتبار سے بڑھی ہوئی ہے۔صحيح البخاري (7/ 151) 
قران کریم نے انار کا ذکر تین مقامات پر فرمایا ہے:{وَهُوَ الَّذِي أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِهِ نَبَاتَ كُلِّ شَيْءٍ فَأَخْرَجْنَا مِنْهُ خَضِرًا نُخْرِجُ مِنْهُ حَبًّا مُتَرَاكِبًا وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِهَا قِنْوَانٌ دَانِيَةٌ وَجَنَّاتٍ مِنْ أَعْنَابٍ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ} [الأنعام: 99]
{ وَهُوَ الَّذِي أَنْشَأَ جَنَّاتٍ مَعْرُوشَاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشَاتٍ وَالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا أُكُلُهُ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ } [الأنعام: 141]
{ فِيهِمَا فَاكِهَةٌ وَنَخْلٌ وَرُمَّانٌ (68)} [الرحمن: 68] 
احادیث مبارکہ میں ایک پیش گوئی بیان کی گئی ہے کہ  قرب قیامت جب دجال کا ظہور ہوگا تو انار اس قدر بڑئے ہوجائیں گے کہایک جماعت انار کھائے گی اور اس کے چھلکے کے سائے تلے سائے میں بیٹھ جائے گی(مسند احمد) رسول اللہﷺ کی سیرت طیبہ میں رسو اللہﷺ کی جو تصویر کشی کی گئی ہے ان احادیث میں غصہ کی وقت کی کیفیت یوں بیان کی گئی ہے۔عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے پاس آئے، وہ لوگ اس وقت تقدیر کے بارے میں بحث کر رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک سخت غصہ کی وجہ سے سرخ ہو گیا، گویا کہ آپ کے چہرے پر انار کے دانے نچوڑ دیئے گئے ہوں،  ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8704، ومصباح الزجاجة: 29)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/196، 178) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏
ایک طویل دلچسپ حدیث نقل کی جاتی ہے۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، گیارہ عورتیں بیٹھیں اور ان تمام نے یہ اقرار کیا اور عہد کیا کہ اپنے اپنے خاوندوں کی کوئی بات نہ چھپائیں گی۔ پہلی عورت نے کہا: میرا خاوند گویا دبلے اونٹ کا گوشت ہے جو ایک دشوار گزار پہاڑ کی چوٹی پر رکھا ہو نہ تو وہاں تک صاف راستہ ہے کہ کوئی چڑھ جائے اور نہ وہ گوشت موٹا ہے کہ لایا جائے۔ دوسری عورت نے کہا: میں اپنے خاوند کی خبر نہیں پھیلا سکتی میں ڈرتی ہوں اگر بیان کروں تو پورا بیان نہ کر سکوں گی، اس قدر اس میں عیوب ہیں ظاہری بھی اور باطنی بھی (اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ میں ڈرتی ہوں اگر بیان کروں تو اس کو چھوڑ دوں گی یعنی وہ خفا ہو کر مجھ کو طلاق دے گا اور اس کو چھوڑنا پڑے گا)۔ تیسری عورت نے کہا: میرا خاوند لمبا ہے (یعنی احمق) اگر میں اس کی برائی بیان کروں تو مجھ کو طلاق دے دے گا اور جو چپ رہو ں تو اوہڑ رہوں گی (یعنی نہ نکاح کے مزے اٹھاؤں گی نہ بالکل محروم رہوں گی)۔ چوتھی نے کہا:میرا خاوند تو ایسا ہے جیسے تہامہ (حجاز اور مکہ) کی رات نہ گرم ہے نہ سرد (یعنی معتدل المزاج ہے) نہ ڈر ہے نہ رنج (یہ اس کی تعریف کی یعنی اس کے عمدہ اخلاق ہیں اور نہ وہ میری صحبت سے ملول ہوتا ہے۔) پانچویں عورت نے کہا: میرا خاوند جب گھر میں آتا ہے تو چیتا ہے (یعنی پڑ کر سو جاتا ہے اور کسی کو نہیں ستاتا) اور جب باہر نکلتا ہ ےتو شیر ہے اور جو مال اسباب گھر چھوڑ جاتا ہے اس کو نہیں پوچھتا۔ چھٹی عورت نے کہا: میرا خاوند اگر کھاتا ہے تو سب تمام کر دیتا ہے اور پیتا ہے تو تلچھٹ تک نہیں چھوڑتا اور لیٹتا ہے تو بدن لپیٹ لیتا ہے اور مجھ پر اپنا ہاتھ نہیں ڈالتا کہ میرا دکھ اور درد پہچانے (یہ بھی ہجو ہے یعنی سوا کھانے پینے کے بیل کی طرح اور کوئی کام کا نہیں عورت کی خبر تک نہیں لیتا۔) ساتویں عورت نے کہا: میرا خاوند نامرد ہے یا شریر نہایت احمق ہے کہ کلام نہیں کرنا جانتا سب جہاں بھر کے عیب اس میں موجود ہیں ایسا ظالم کہ تیرا سر پھوڑے یا ہاتھ توڑے یا سر اور ہاتھ دونوں مروڑے۔ آٹھویں عورت نے کہا: میراخاوند بو میں زرنب ہے (زرنب ایک خوشبودار گھاس ہے) اور چھونے میں نرم جیسے خرگوش (یہ تعریف ہے یعنی اس کا ظاہر اور باطن دونوں اچھے ہیں۔ نویں عورت نے کہا: میرا خاوند اونچے محل والا لمبے پر تلے والا (یعنی قدآور) بڑی راکھ والا (یعنی سخی ہے اس کا باورچی خانہ ہمیشہ گرم رہتا ہے تو راکھ بہت نکلتی ہے) اس کا گھر نزدیک ہے مجلس اور مسافر خانہ سے (یعنی سردار اور سخی ہے اس کا لنگر جاری ہے)۔ دسویں عورت نے کہا: میرے خاوند کا نام مالک ہے مالک افضل ہے میری اس تعریف سے، اس کے اونٹوں کے بہت شترخانے ہیں اور کمتر چراگاہیں ہیں (یعنی ضیافت میں اس کے یہاں اونٹ بہت ذبح ہوا کرتے ہیں اس سبب سے شترخانوں سے جنگل میں کم چرنے جاتے ہیں) جب کہ اونٹ باجے کی آواز سنتے ہیں تو اپنے ذبح ہونے کا یقین کر لیتے ہیں (ضیافت میں راگ اور باجے کا معمول تھا اس سبب سے باجے کی آواز سن کر اونٹوں کو اپنے ذبح ہونے کا یقین ہو جاتا تھا)۔ گیارھویں عورت نے کہا: میرے خاوند کا نام ابوزرع ہے، سو واہ! کیا خوب ابوزرع ہے، اس نے زیور سے میرے دونوں کان جھلائے اور چربی سے میرے دونوں بازو بھرے (یعنی مجھ کو موٹا کیا اور مجھ کو بہت خوش کیا) سو میری جان بہت چین میں رہی۔ مجھ کو اس نے بھیڑ بکری والوں میں پایا جو پہاڑ کے کنارے رہتے تھے سو اس نے مجھ کو گھوڑے اور اونٹ اور کھیت اور خرمن کا مالک کر دیا (یعنی میں نہایت ذلیل اور محتاج تھی اس نے مجھ کو باعزت اور مالدار کر دیا) میں اس کی بات کرتی ہوں وہ مجھ کو برا نہیں کہتا سوتی ہوں تو فجر کر دیتی ہوں (یعنی کچھ کام نہیں کرنا پڑتا) اور پیتی ہوں تو سیراب ہو جاتی ہوں۔ ماں ابوزرع کی! سو کیا خوب ہے ماں ابوزرع کی اس کی بڑی بڑی گٹھڑیاں کشادہ اور کشادہ گھر۔ بیٹا ابوزرع کا! سو کیا خوب ہے بیٹا ابوزرع کا اس کی خواب گاہ جیسے تلوار کی میان (یعنی نازنین بدن ہے) اس کو آسودہ کر دیتا ہے حلوان کا ہاتھ۔ (یعنی کم خور ہے) بیٹی ابوزرع کی! سو کیا خوب ہے بیٹی ابوزرع کی، اپنے ماں باپ کی تابعدار اپنے لباس کے بھرنے والی (یعنی موٹی ہے) اور اپنے سوت کی رشک (یعنی اپنے خاوند کی پیاری ہے) اس واسطے اس کی سوت اس سے جلتی ہے۔ لونڈی ابوزرع کی! کیا خوب ہے لونڈی ابوزرع کی ہماری بات مشہور نہیں کرتی ظاہر کر کے اور ہمارا کھانا نہیں لے جاتی اٹھا کر اور ہمارا گھر آلودہ نہیں رکھتی کوڑے سے۔ ابوزرع باہر نکلا جب کہ مشکوں میں دودھ متھا جاتا تھا (گھی نکالنے کے واسطے) سو وہ ملا ایک عورت سے، جس کے ساتھ اس کے دو لڑکے تھے جیسے دو چیتے اس کی گود میں دو اناروں سے کھیلتے تھے سو ابوزرع نے مجھے طلاق دے دی اور اس عورت سے نکاح کیا، پھر میں نے اس کے بعد ایک سردار مرد سے نکاح کیا عمدہ گھوڑے کا سوار اور نیزہ باز۔ اس نے مجھ کو چوپائے جانور بہت دیے اور اس نے مجھ کو ہر مویشی سے جوڑا جوڑا دیا سو اس نے مجھ سے کہا کہ اے ام زرع! اور کھلا اپنے لوگوں کو سو اگر میں جمع کروں جو دوسرے خاوند نے دیا تو ابوزرع کے چھوٹے برتن کے برابر بھی نہ پہنچے (یعنی دوسرے خاوند کا احسان پہلے خاوند کے احسان سے نہایت کم ہے) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”میں تیرے لیے ایسا ہوں جیسے ابوزرع تھا ام زرع کے لیے۔“ (یعنی ویسی تیری خاطر کرتا ہوں اور سب باتوں میں تشبیہ ضروری نہیں تو آپ نے طلاق نہیں دی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو اور یہ غیبت میں داخل نہیں جو عورتوں نے اپنے خاوندوں کا ذکر کیا کیونکہ انہوں نے اپنے خاوندوں کا نام نہیں لیا اور جب تک نام لےکر کسی کی برائی نہ کرے وہ غیبت نہیں۔ دوسرے یہ کہ یہ عورتیں مجہول ہیں یہ اگر غیبت بھی کرتی ہوں تو کیا بعید ہے اور اس وقت میں اگر کوئی عورت اپنے خاوند کی برائی کرے ان لوگوں کے سامنے جو اس کے خاوند کو پہنچانتے ہوں تو وہ غیبت ہو جائے گی گو نام نہ لے نووی)۔صحيح مسلم (4/ 1896)مسند إسحاق بن راهويه (2/ 241)
حجرت علی کرم اللہ وجہہ نے انار کو چھلکے سمیت کھانا معدہ کے لئے مفید قرار دیا ہے۔( (ابن حنبل)
السفرجل۔
اھادیث مبارکہ میں پھلوں کی اقسام مین سفرجل یعنی بہی کے فوائد بیان کئے گئے ہیں۔رسول اللہﷺنے خدمت اقدس میں ایک شخص ہاتھ میں سفرجل لئے داخل ہوا۔رسول اللہﷺنے دیکھ کر فرمایا۔یہ دل کے لئے بہترین چیز ہے۔طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اور آپ کے ہاتھ میں بہی (سفرجل) ۱؎ تھا، آپ نے مجھ سے فرمایا: ”طلحہ! اسے لے لو، یہ دل کے لیے راحت بخش ہے“ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5004، ومصباح الزجاجة: 1167)
انگور۔
قران کریم نے انگور کا ذکر کئی بار کیا ہے
{أَوْ تَكُونَ لَكَ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْأَنْهَارَ خِلَالَهَا تَفْجِيرًا} [الإسراء: 91]
{ وَعِنَبًا وَقَضْبًا} [عبس: 28]
{جَعَلْنَا فِيهَا جَنَّاتٍ مِنْ نَخِيلٍ وَأَعْنَابٍ وَفَجَّرْنَا فِيهَا مِنَ الْعُيُونِ} [يس: 34]
{ حَدَائِقَ وَأَعْنَابًا} [النبأ: 32]
پھلوں کی مناسبت سےکچھ اھادیث بھی موجود ہیں،علمائے جغرافیہ نے طائف کے حالات میں مختلف پھلوں کا ذکر کیا ہے۔
 مکہ مکرمہ میں پھل عمومی طورپر طائف سے پھل منگوائیں جاتے تھے(ابن حوقل ص 39۔المقدسی 80)
رسول اللہﷺ کے لئے طائف سے انگور بطور ہد یہ آیا کرتے تھے۔ 
انگور انسانی غذا کا اہم حصہ ہے اس کی تجارت کے بارہ خصوصی احکامات ارشاد فرمائے۔عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزابنہ سے منع فرمایا، مزابنہ یہ ہے کہ آدمی اپنے باغ کی کھجور کو جو درختوں پر ہو خشک کھجور کے بدلے ناپ کر بیچے، یا انگور کو جو بیل پر ہو کشمش کے بدلے ناپ کر بیچے، اور اگر کھیتی ہو تو کھیت میں کھڑی فصل سوکھے ہوئے اناج کے بدلے ناپ کر بیچے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب سے منع کیا ہے ۔: «‏‏‏‏صحیح البخاری/البیوع 75 (2171)، 82 (2185)، صحیح مسلم/البیوع 14 (1542)، سنن النسائی/البیوع 30 (4537)، 37 (4553)، (تحفة الأشراف: 8273)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/البیوع 19 (3361) موطا امام مالک/البیوع 13 (23)، مسند احمد (2/5، 7، 16) (صحیح)» ‏‏‏‏۔؎: اور یہ آخری صورت محاقلہ کہلاتی ہے، بیع محاقلہ: یہ ہے کہ گیہوں کا کھیت گیہوں کے بدلے بیچے، یا چاول کا کھیت چاول کے بدلے، غرض اپنی جنس کے ساتھ، اور یہ اس لئے منع ہوا کیونکہ اس میں کمی بیشی کا احتمال ہے۔
انگور خشک کرکے کشمش بنائی جاتی ہے عربی لوگ اسے مہمان کے لئے بطور تحفہ پیش کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ رسول اللہﷺ اپنے ایک جلیل القدر صحابی حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے ،انہوں نے کشمش سے تواضع فرمائی(مسند احمد بن حنبل)طائف سے بہترین کشمش کے محصولات آتے تھے ان کی عمدگی کی مثالیں دی جاتی تھیں(قزوینی ،الآثار) حضرت عمرو بن العاص (المتوفی43ھ)کے انگور کے باغات مشہور زمانہ تھے جنہیں ٹینٹیوں پر چڑھایا گیا تھا(الفاکہی ،اخبار مکہ3/205)
سریہ عبد اللہ بن جحش یا سریہ نخلہ دور نبوی کا اہم ترین سریہ سمجھا جاتا ہے۔ حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہجرت کے دوسرے سال رجب میں عبد اللہ بن جحش کو 12 (بعض روایت میں 8) مہاجر قوم صحابہ کے ساتھ بطن نخلہ روانہ روانہ کیا۔ اس سریہ میں عبد اللہ بن جحش کے ساتھ ابوحذیفہ بن عتبہ، عمرو بن سراقہ، سعد بن ابی وقاص، عامر بن ربیعہ، عتبہ بن غزوان، واقد بن عبد اللہ اور صفوان بن بیضاء رضی اللہ عنہم ساتھ تھے۔۔اس میں تجارتی قافلے کے سامان میں اہم ترین چیز طائف لائی جانے والی کشمش تھی۔(الواقدی) 
جس وقت (9ھ/630م)وفد ثقیف رسول اللہﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو ہدایا و تھائف میں جو زشیائ تھیں ان میں طایف کی مشہور کشمش،انگور،انار اور خوبانی تھیں۔بقول مورخ ابن سبۃ جب یہ وفد حاضر خدمت ہوا تو طائف کی مشہور سوگات،شہد،کشمش،انار بھی تھے(ابن شبۃ2/500)
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے عامل طائف کہتے ہیں عمدگی کے لحاظ سے خوبانیاں انگوروںسے بھی فائق تر تھیں(ابن اثیر)
بیر(النبق)حدیث معراج میں بیری کے درخت کا ذکر ہے۔سورہ النجم میں بھی بیری کا تذکرہ موجود ہے{ عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى} [النجم: 14]
حدیث معراج:انس بن مالک، مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں کعبہ کے پاس نیم خواب اور نیم بیداری میں تھا کہ اسی دوران میرے پاس تین (فرشتے) آئے، ان تینوں میں سے ایک جو دو کے بیچ میں تھا میری طرف آیا، اور میرے پاس حکمت و ایمان سے بھرا ہوا سونے کا ایک طشت لایا گیا، تو اس نے میرا سینہ حلقوم سے پیٹ کے نچلے حصہ تک چاک کیا، اور دل کو آب زمزم سے دھویا، پھر وہ حکمت و ایمان سے بھر دیا گیا، پھر میرے پاس خچر سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا ایک جانور لایا گیا، میں جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ چلا، تو ہم آسمان دنیا پر آئے، تو پوچھا گیا کون ہو؟ انہوں نے کہا: جبرائیل ہوں، پوچھا گیا آپ کے ساتھ کون ہیں؟ انہوں نے کہا: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں، پوچھا گیا: کیا بلائے گئے ہیں؟ مرحبا مبارک ہو ان کی تشریف آوری، پھر میں آدم علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بیٹے اور نبی! پھر ہم دوسرے آسمان پر آئے، پوچھا گیا: کون ہو؟ انہوں نے کہا: جبرائیل ہوں، پوچھا گیا: آپ کے ساتھ کون ہیں؟ انہوں نے کہا: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں، یہاں بھی اسی طرح ہوا، یہاں میں عیسیٰ علیہ السلام اور یحییٰ علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے ان دونوں کو سلام کیا، ان دونوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بھائی اور نبی! پھر ہم تیسرے آسمان پر آئے، پوچھا گیا کون ہو؟ انہوں نے کہا: جبرائیل ہوں، پوچھا گیا: آپ کے ساتھ کون ہیں؟ انہوں نے کہا: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں، یہاں بھی اسی طرح ہوا، یہاں میں یوسف علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بھائی اور نبی! پھر ہم چوتھے آسمان پر آئے، وہاں بھی اسی طرح ہوا، یہاں میں ادریس علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بھائی اور نبی! پھر ہم پانچویں آسمان پر آئے، یہاں بھی ویسا ہی ہوا، میں ہارون علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بھائی، اور نبی! پھر ہم چھٹے آسمان پر آئے، یہاں بھی ویسا ہی ہوا، تو میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بھائی اور نبی! تو جب میں ان سے آگے بڑھا، تو وہ رونے لگے ۱؎، ان سے پوچھا گیا آپ کو کون سی چیز رلا رہی ہے؟ انہوں نے کہا: پروردگار! یہ لڑکا جسے تو نے میرے بعد بھیجا ہے اس کی امت سے جنت میں داخل ہونے والے لوگ میری امت کے داخل ہونے والے لوگوں سے زیادہ اور افضل ہوں گے، پھر ہم ساتویں آسمان پر آئے، یہاں بھی ویسا ہی ہوا، تو میں ابراہیم علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بیٹے اور نبی! پھر بیت معمور ۲؎ میرے قریب کر دیا گیا، میں نے (اس کے متعلق) جبرائیل سے پوچھا تو انہوں نے کہا: یہ بیت معمور ہے، اس میں روزانہ ستر ہزار فرشتے نماز ادا کرتے ہیں، جب وہ اس سے نکلتے ہیں تو پھر دوبارہ اس میں واپس نہیں ہوتے، یہی ان کا آخری داخلہ ہوتا ہے، پھر سدرۃ المنتھی میرے قریب کر دیا گیا، اس کے بیر ہجر کے مٹکوں جیسے، اور اس کے پتے ہاتھی کے کان جیسے تھے، «صحیح البخاری/بدء الخلق 6 (3207)، أحادیث الأنبیاء 22 (3393)، 42 (3430)، مناقب الأنصار 42 (3887)، صحیح مسلم/الإیمان 74 (164)، سنن الترمذی/تفسیر سورة الم نشرح (3346) (مختصراً، وقال: في الحدیث قصة طویلة)، (تحفة الأشراف: 11202)، مسند احمد 2/207، 208، 210 (صحیح)»



 

Comments

Popular posts from this blog