طب نبویﷺمیں سوکھے سڑے جسم کا علاج از حکیم قاری محمد یونس شاہد میو

 طب نبویﷺمیں

 سوکھے سڑے جسم کا علاج

In the Prophetic Medicine
  Treatment of dry rotten body
في الطب النبوي
  علاج جفاف الجسم المتعفن

طب نبویﷺمیں

 سوکھے سڑے جسم کا علاج

از حکیم قاری محمد یونس شاہد میو

منتظم اعلی ۔سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ کاہنہ نو لاہور


ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میری والدہ نے چاہا کہ میں قدرے موٹی ہو جاؤں تاکہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر بھیجا جا سکے۔ مگر مجھے ان کی حسب منشا کسی چیز سے۔۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 17182)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الاطعمة 37 (3324)، سنن النسائی/الکبری (6725) (صحيح)

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے گندمی رنگ کے گیہوں کی سفید روٹی جو گھی اور دودھ میں چپڑی ہوئی ہو بہت محبوب ہے“ تو قوم میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور اسے بنا کر آپ کی خدمت میں لایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”یہ کس برتن میں تھا؟“ اس نے کہا: سانڈا (سوسمار) کی کھال کے بنے ہوئے ایک برتن میں تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تو اسے اٹھا لے جاؤ“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث منکر ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اور اس حدیث میں وارد ایوب، ایوب سختیانی نہیں ہیں۔«‏‏‏‏سنن ابن ماجہ/الأطعمة 47 (3341)، (تحفة الأشراف: 7551)شعب الإيمان (8/ 134)شرح معاني الآثار (4/ 199)السنن الكبرى للبيهقي (9/ 547)

ام المومنین حضرت صفیہ بنت حئی رضی اللہ عنہا، کے نکاح کے بارہ میں ایک طویل حدیث  نقل کی جاتی ہے۔

‏‏‏‏ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ردیف تھا سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا خیبر کے دن اور قدم میرا چھو جاتا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم سے، پھر پہنچے ہم اہل خیبر کے پاس جب آفتاب نکلا اور ان لوگوں نے اپنے چارپایوں کو نکالا تھا۔ اور وہ اپنے کدال اور ٹوکری اور پھاوڑے لے کر نکلے اور کہنے لگے: محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور خمیس یعنی دونوں آ گئے کہاراوی نے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”خراب ہوا خیبر اور جب ہم اترتے ہیں کسی قوم کے آنگن میں سو برا انجام ہوتا ہے ڈرائے گئے لوگوں کا۔“ اور اللہ تعالٰی نے ان کو شکست دی اور دحیہ رضی اللہ عنہ کے حصہ میں ایک باندی خوبصورت آئی اور خرید لیا اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات شخصوں کے بدلے میں اور پھر سپرد کیا اس کو ام سلیم رضی اللہ عنہا کےکہ سنگار کر دیں ان کا اور تیار کر دیں ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے۔ اور کہا راوی نے کہ گمان کرتا ہوں میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے ان کے سپرد کیا کہ وہ ان کے گھر میں عدت پوری کرے یعنی ایک حیض کے ساتھ استبراء ان کا ہو جو حکم ہے باندی کا اور یہ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا بیٹی تھیں حیی کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکا ولیمہ کیا کھجور اور اقط سے اور گھی سے اور زمین میں کئی گڑھے کھودے گئے اور اس میں دستر خوان چمڑے کا بچھا دیا گیا، گڑھے اس لیے کھودے کہ گھی ادھر ادھر نہ جانے پائے اور اقط اور گھی لائے اور اس میں ڈال دیا۔ اور لوگوں نے خوب سیر ہو کر کھایا اور لوگ کہنے لگے کہ ہم نہیں جانتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کیا یا ان کو ام ولد بنایا پھر لوگوں نے کہا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو چھپایا تو جانو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہیں اور اگر نہ چھپایا تو جانو کہ ام ولد ہیں، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہونے لگےتو ان پر پردہ کیا اور وہ اونٹ کے سرین پر بیٹھیں، سو لوگوں نے جان لیا کہ ان سے نکاح کیا ہے پھر جب مدینہ کے قریب پہنچ گئے جلدی چلایا اونٹوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور جلدی چالایا ہم نے اور ٹھوکر کھائی عضباء اونٹنی نے یہ نام ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گرے اور سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا بھی گریں سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور ان پر پردہ کر لیا اور عورتیں دیکھنے لگیں اور کہنے لگیں اللہ دور کرے یہودیہ کو۔ کہا راوی نے میں نے کہا اے حمزہ،کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گر پڑے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں اللہ کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم گر پڑے اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں سیدہ زینب ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کے ولیمہ میں بھی حاضر تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو آسودہ اور سیر کر دیا روٹی اور گوشت سے اور مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھیجتے تھے کہ لوگوں کو بلا لاؤں پھر جب کھلانے سے فارغ ہو چکے۔ کھڑے ہوئے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہوا دو شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے میں رہ گئے (یعنی جہاں زینب تھیں) اور ان کو باتوں نے بٹھا رکھا اور وہ نہ نکلے سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیبیوں کے حجروں پر جاتے تھے اور ہر ایک پر سلام کرتے تھے اور فرماتے تھے:کہ ”کیسے ہو تم اے گھر والو!“ وہ کہتی تھیں کہ ہم خیریت سے ہیں، اے رسول اللہ کے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بی بی کو کیسا پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: کہ ”خیر سے ہیں۔“ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب کی خیر و عافیت پوچھنے سے فارغ ہوئے لوٹے اور میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لوٹا اور جب دروازے پر پہنچے تو دیکھا کہ وہ دونوں شخص موجود ہیں اور باتوں میں مشغول ہیں۔ پھر جب ان دونوں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹے، کھڑے ہو گئے اور باہر نکلے سو اللہ کی قسم ہے کہ مجھے یاد نہیں رہا کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتری کہ وہ دونوں شخص چلے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹ کر آئے یعنی حجرہ زینب پر اور میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آیا۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیر رکھا دروازے کی چوکھٹ پر، پردہ ڈال دیا میرے اور اپنے بیچ میں اور یہ آیت مبارک اتری «لاَ تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِىِّ إِلاَّ أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ» ”نہ داخل ہو تم نبی کے گھر میں مگر جب ان کی طرف سے اجازت ہو تم کو۔“

صحيح مسلم (2/ 1045)مسند أحمد ط الرسالة (21/ 196)السنن الكبرى للبيهقي (7/ 90)

جس طرح ہر ملک اور ہر معاشرہ مین ہوتا ہے کہ دستیاب چیز سے مختلف قسم کے اشیاء تیار کی جاتی ہیں ۔اسی طرح عرب لوگبھی مکھن کو مختلف انداز مین استعمال کیا کرتے تھے جیسے ایک البریقہ نامی چیز تیا کی جاتی تھی جس پر مکھن ڈالا جاتا تھا(ابن سکیت2/641)

الحلیجۃ۔اس میں مکھن گھی کو دودھ دال کر کھجوریں شامل کرتے ہیں اگر اسے کھجورکا حلوہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو(ابن سکیت2/139)

الخلیط۔یعنی مکھن کو چربی کے ساتھ ملاکر استعمال کرنا(الثعالبی ص240)

الصحیرۃ۔گرم دودھ میں مکھن ڈال کر پینا(ابن سکیت2/637)

الضبیبۃ۔کیک اور مکھن ملاکر استعمال کرنا(ابن سکیت)

حجرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں ایک بار قحط پڑا جسے عام الرماد کے نام سے جانا جاتا ہے اس میں مکھن بہت مہنگا ہوگیا تھا۔(ابن ابی شیبۃ2/741)

4۔الصناب۔۔کشمش پر رائی چھڑک کر استعمال کرنا(ابن درید1/299۔الثعالبی ص240)

ایک عرابی نے خرگوش شکارکرکے بھونا اور رسول اللہ ﷺکے سامنے پیش کیا اس کے ساتھ رائی اور کشمش کی چٹنی بھی موجود تھیمسند أحمد ط الرسالة (14/ 154)الجامع الصحيح للسنن والمسانيد (7/ 279)


Comments

Popular posts from this blog