جادو سیکھنے والے ایک لڑکے کا قصہ The story of a boy who learns magic


 جادو سیکھنے والے ایک لڑکے کا قصہ
The story of a boy who learns magic


 جادو سیکھنے والے ایک لڑکے کا قصہ
 پرانے زمانہ میں کسی بادشاہ کا ایک جادو گر تھا جب بوڑھا ہوگیا تو اس نے باشاہ سے کہا مجھے کوئی بچہ دیدیں تاکہ میں اسے اپنا فن سکھا دوںاس کی خواہش کے مطابق ایک بچہ منتخب کرکے اس کے حوالے کردیا گیا وہ بچہ آتے جاتے ایک راہب کے پاس رکنے لگا تو اس کو راہب نے اچھے علم کی دعوت دی وہ بڑا ہو[پورا قصہ تفسیر نسفی سورہ البروج دیکھئے اور ابن کثیر۸/۳۵۷ البروج الاحاد والمثانی۱/۲۱۹ السنن الکبری۶/۱۰ ۵ مسند البزار۶/۱۸] قصہ یوں ہے ،نبیﷺ نے فرمایا :پہلے لوگوں میں ایک بادشاہ تھا اس نے ایک جادو گر رکھا ہوا تھا جادوگر جب بوڑھا ہوگیا تو اس نے بادشاہ سے کہا مجھے کوئی ایک ایسا لڑکا دیں جسے میں یہ اپنا فن و ہنر سکھا سکوں تو بادشاہ نے اسے ایک لڑکا دیدیا، اب لڑکا روز اس جاگر کے پاس جانے لگا بادشاہ اور جادو گر کے درمیان راستہ میں ایک راہب رہتا تھا ایک دن لڑکا راہب کے پاس آکر بیٹھا اسے راہب کی باتیں اچھی لگیںاس کا کلام سنا جو اسے بھلا لگا اس کے بعد راہب کے پاس بچہ یومیہ وقت دینے لگا جب گھر سے جاتا اور جادو گر کے پاس تاخیر سے پہنچتا تو جادوگر تاخیر کا سبب پوچھتا اور جب جادوگر سے تعلیم کے بعد گھر سے لیٹ ہوتا گھر والے تاخیر کا سبب پوچھتے کیونکہ وہ آجاتے ہوئے، راہب کے پاس پہنح کر اس کی باتیں سنا کرتا تھا، اب تاخیر کی وجہ سے دونوں طرف سے اس کی پٹائی ہونے لگی جب اس بات سے پریشان ہوا تو راہب نے اسے کہا کہ گھر والو ں سے کہدیا کر، جادوگر نے تاخیر سے چھٹی دی تھی اور جب جادو گر پو چھے تو کہدیا کر گھر والے نے بھیجدینے میں تاخیر کی ہے اب لڑکا دل جمی کے ساتھ راہب کے پاس بیٹھنے لگا ایک دن دیکھا کہ راستہ میں ایک بہت بڑا جانور لوگوں کا راستہ گھیرے کھڑا ہوا تھا لوگ اس کے دفاع سے عاجز تھے، بچہ نے کہا آج امتحان کا موقعہ ہے کہ آزمایا جائے کہ کونسا علم اچھا ہے اللہ کے نزدیک مقبول ہے ،اس لڑکے نے ایک پتھر پکڑا اور کہا :اللھم ان کان امر الراہب احب الیہ من امر الساحر فانی ارمی بحجری  ھذا فیقتلہ … اے اللہ! اگر راہب کا والا عمل تیرے نزد یک جادو گر سے اچھا ہے تو میں [اس کا واسطہ دیکر سوال کرتا ہوں]یہ پتھر پھینکتا ہوں تو اس جانور کو ختم کردے؛ تو وہ جانور مرگیا ۔امام ترمذی کے مطابق یہ دابہ شیر تھاجب یہ واقعہ اس نے راہب کو سنایا راہب نے کہا اب تو مجھ سے بہتر ہوگیا ہے، اب اگر کوئی میرے بارہ میں پوچھے تو میرا مت بتانا اب لڑکا اندھوں اور کوڑھیوں کا بھی علاج کرنے لگا اسی طرح تمام معالجات میں ماہر ہوگیا ،اس بادشاہ کا ایک درباری اندھا تھا اسے لوگوں نے اس لڑکے بارہ میں بتایا لڑکے نے اس کا بھی علاج کردیا لیکن ساتھ یہ بھی کہدیا کہ یہ شفا میرا ذاتی کمال نہیں بلکہ یہ تو اللہ کی طرف سے ہوتی ہے جو بھی شفا پاتا اسے دعوت دیتا وہ کلمہ پڑھ لیتا[مسند البزار ۶/۱۸، مسند احمد۶/۱۷، المعجم الکبیر۸/۴۳،شعب الایمان۲/۲۴۰فتح الباری۸/۶۹۸تفسیر الطبر ی ۰۳/۱۲۸ تفسیر القرطبی۱۹ /۲۸۷ الثبات عند الممات۱/۹۲مسند الصحابہ فی کتب ال تسعۃ 46/315] جب مصاحب کی صحت کا واقعہ معلوم ہوا وزیر نے بتایا کہ میرے رب نے میری بینائی لوٹادی،بادشاہ نے کہا کیا میرے سوا بھی تیرا کوئی رب ہے ؟ وزیر نے جواب دیا میرا اور تیرا رب اللہ ہے یہ جواب سن کر بادشاہ نے ایک آراہ منگوایا اس کے سر پر چلواکر دوٹکڑے کردئے جب اس کی اطلاع راہب کو دی تو راہب نے کہا تیری ایک خاص شان ہے تو اس کی وجہ سے آزمائش میں مبتلاء ہوگا خبردار میرا کسی سے تذکرہ نہیں کرنا لیکن بادشاہ کو ان تینوں کے حالات معلوم ہوگئے ۔ان تینوں کو طلب کرکے را ہب و نابینا کو آراہ سے چروادیا اور لڑکے کے بارے میں حکم دیا کہ اسے پہاڑ پر لے جاکر سر کے بل گرادو۔بادشاہ کے فرستادگان لڑکے کولیکر پہاڑ پر پہنچے ، گرانے کا قصد کیا تو لڑکے نے دعا کی ’’یااللہ جس طرح چاہے توان کو میری طرف سے بھگت لے‘‘دعا قبول ہوئی وہ لوگ پہاڑ سے سے گر کر ہلاک ہوگئے لڑکا سلامت کے ساتھ واپس لوٹ آیا ۔بادشاہ نے اپنے آدمیوں کے بارے میں پوچھا تو لڑکے نے جواب دیا کہ اللہ نے میری طرف سے ان کا قصہ تمام کردیا ۔اس پر بادشاہ ے حکم دیا کہ لڑکے کو سمندر میں لے جاکر ڈبودو چنانچہ لوگوں نے اس حکم کی تعمیل کی اور لڑکے کو سمندر میں دھکیل دیا لیکن اللہ نے لڑکے کے بجائے انہیں لوگوں کو غرق آب کردیا لڑکا پانی پر چلتا ہوا بادشاہ کے پاس پہنچابادشاہ لڑکے کو دیکھ کر بہت متحیر ہوا آخر لڑکا خود ہی بادشاہ سے مخاطب ہوکرکہنے لگاکیا واقعی آپ میری جان لینے کا قصد رکھتے ہیں ؟ب بادشاہ نے اثبات میں جواب دیااس پر لڑکے نے کہا آپ مجھے ہرگز نہیں مارسکتے البتہ مجھے ما ر نا ہی ہے تو ایک تختہ پر باندھ کر ایک تیر یہ کہکر مجھے مارو’’بسم اللہ رب ھذا الغلام ‘‘ مگر مارنے سے پہلے سب لوگوں کو ایک میدان میں جمع کر لینا ۔بادشاہ نے حسب ہدایت یہ سب انتظامات کئے حسب ترکیب ایک تیر مارا کو لڑکے کی کنپٹی پر جاکر لگا تیر لگنے کے مرنے سے پہلے لڑکے نے اپنا ہاتھ کنپٹی پر[تیر لگنے کی جگہ] رکھ دیا لڑکا شہید ہوگیا لیکن مجمع نے یہ صورت حال دیکھ کر کلمہ شہادت پڑھ لیا ۔بادشاہ کے مصاحبوں نے کہا پہلے تو آپ صرف تین لوگوں کے اسلام سے خوف ذدہ تھے اب تو ایک مجمع سامنے ہے کیا ہونا چاہئے ؟ بادشاہ نے یہ دیکھ کر ایک خندق کھود کر لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دیا اس کے بعد آگ بھڑکائی گئی ایمان لانے والوں کو اس آگ میں جھونک دیا گیا ۔ہر اس شخص کو آگ میں ڈال دیا جس نے اسلام پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا ۔مسلم کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ بادشاہ کے لوگ ایک ایسی عورت کو آگ میں ڈالنے کے لئے لائے تو اس کے ساتھ ایک سات ماہ کا بچہ بھی تھا عو ر ت نے حالات کی نزاکت محسوس کی یہ حالت دیکھ کر شیرخوار بچہ جس کی عمر ابھی [بقول ابن قتیبہ] سات ماہ کی تھی بول پڑا اماں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے آپ حق پر ہیں ۔امام ترمذی کے مطابق حضرت عمر کے زمانے میں اس لڑکے کی لاش قبر سے برآمد ہوئی لڑکے نے اپنا ہاتھ ابھی تک کنپٹی پر رکھا ہوا تھا۔محمد ابن اسحق کہتے ہیں لڑکے کا نام عبداللہ بن التامر تھا[السیرۃ النبویہ۱/۱۵۱، تحفۃ الاحوذی۹/۱۸۶] حضرت عمر کے دور میںنجران میں ایک آدمی نے ایک ویرانہ کھودا وہاں لڑکے کی لاش برآمد ہوئی جو ایک دیوار کے نیچے گڑی ہوئی تھی لڑکے کا ہاتھ تیر لگنے کی جگہ کنپٹی پر رکھا ہوا تھا اس کی انگلی کی انگوٹھی پر ’’ربی اللہ‘‘ لکھا ہوا تھا اس واقعہ کی تحریری طور پر حضرت عمر ؓ کو اطلاع دی گئی تو حضرت عمر نے لکھ بھیجا کہ لاش کو اسکی اپنی حالت پر چھوڑ دو۔ یہ واقعہ رسول اللہ ﷺکی بعثت سے ستر سال پہلے پیش آیاتھا [الحیوٰۃ الحیوان للدمیری ۲/۹۲ وما بعد] 

Comments

Popular posts from this blog