شناخت غشی اور بے ہوشی .حکیم قاری محمد یونس شاہد میو


شناخت غشی اور بے ہوشی 
.حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
شناخت غشی اور بے ہوشی

حکما ء حضرات کے لئے اس وقت ادقت پیش آتی ہے جب کوئی مریض ایسا آجائے جو بے ہوش ہو لیکن اس کی شناخت نہ ہورہی ہو کہ یہ بے ہوش کیوں ہوا؟یہ غشی ہے یابے ہوشی ؟ یقینی طور پر کچھ کہنا مشکل ہوتا ہے۔ان دونوں کا بنیادی فرق بیان کرتے ہیں تاکہ تشخیص میں آسانی رہے۔غشی میں مریض اچانک بیٹھے ہوئے یا چلتے ہوئے ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے۔اسی حالت میں بے قابو ہوکر گر جاتا ہے[غدی عضلاتی] ہندو ویدک کی مشہور کتاب’’امرت شاگر میں لکھا ہے’’  غشی اور پیاس ہو اور منہ سوکھ جاوے،پیشانی گرم رہے،تالو اور آنکھوں میں گرمی رہے،اندھیر ا اور چکر آویں(یہ سب صفراوی علامات ہیں)
اس کے برعکس بے ہوشی میں مریض اچانک بے ہوش نہیں ہوتا مریض بیماری کی وجہ سے آہستہ آہستہ کمزور ہوکر بے ہوش ہوتاہے[اعصابی عضلاتی] بے ہوشی والے مریض میں عمومی طورپر یہ چیزیں دیکھی جاتی ہیں’’اونگھ آوے ،نیند گہری سوئے،منہ میٹھا رہے،منہ سے رال بہے،کھانے کی اشتہا نہ ہوبدن بھاری رہے،چکنی،میٹھی ٹھنڈی بلغم یا قے آئے (امرت ساگر) غشی کا دورہ ختم ہونے کے بعد مریض اپنے اندر کمزوری یا ناطاقتی محسوس نہیں کرتا ،جب کہ بے ہوشی والا مریض پہلے سے زیادہ کمزور و نحیف ہو جا تاہے کیونکہ غشی غدی تحریک سے ہوا کرتی ہے جس میں حرارت کی کثرت ہوتی ہے اور دورہ ختم ہونے کے بعد بھی حرارت میں کمی نہیں ہوتی جو کمزوری کا سبب بنتی ہے۔
 بے ہوشی اعصابی تحریک میں ہوتی ہے جس میں حرارت کا اخراج بہت زیادہ ہوتا ہے رد عمل کے طور پر عضلات کو حرارت پیدا کرنی پڑتی ہے اس اضافی کام کی وجہ سے عضلات کمزوری محسوس کرتے ہیں۔ مریض کو کمزوری کا احساس ہوتا ہے۔اس بات کے قدیم حکماء بھی قائل تھے ۔ حکیم داؤد انطاکی فرماتے ہیں :جب غشی آجائے تو ہوش میں لانے کے لئے سرد پانی کے چھینٹیں ماریں خوشبویات سے کام لیں(طب اکبر باب12۔285/1) اسلامی دنیا کے نامور اطباء کی تحقیق کے ساتھ ہندو وید بھی اسی کی تائید کرتے ہیں’’ٹھنڈے پانی سے صفرا کی بے ہوشی دور ہو۔۔کافور چندن ٹھنڈی چیز کے ملنے سے بے ہوشی دور ہو(امرت ساگرصفحہ 99)
حضرت مجدد الطب فرماتے ہیں ’’غشی اور بے ہوشی دو ایسی علامات ہیں جن کا تعلق تو قوی اور حواس کے ساتھ ہے مگر امراض کی صورت میں تمام جسم کے ساتھ ہے یعنی جسم میں کسی مرض یا علامت میں شدت پیدا ہوجائے تو غشی اور بے ہوشی تک نوبت پہنچ جاتی ہے ،فرنگی ڈاکٹروں نے غشی و بے ہوشی کو ایک ہی چیز لکھا ہے، صرف کمی بیشی کا فرق لکھا ہے یعنی تکلیف خفیف ہوتو غشی اور تکلیف زیادہ ہوتو پھر بے ہوشی ہوتی ہے لیکن یہ بالکل غلط ہے جاننا چاہئے کہ غشی ضعف عضلات ،قلب کانام ہے اور بے ہوشی اعصاب و دماغ کی شدت ضعف کا نام ہے جو انتہائی تحلیل سے پیدا ہوتی ہیں، چاہے یہ تحلیل رفتہ رفتہ واقع ہو یا وقتی طور پر کسی شدید تکلیف یا حادثہ میں واقع ہوجائے مثلاََ استفراغات کی کثرت،بھوک کی شدت ناقابل برداشت درد،بڑھا ہوا بخارزہر کے اثرات۔ کیفیات کی تیزی۔ نفسیات کی شدت جیسے غم و غصہ اور خوف و خوشی کے ناقابل برداشت حالات جن کے بعدبعض دفعہ موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔
اہم نکتہ۔
اعصابی تحریک میں مریض کامل بے ہوش نہیں ہوا کرتا،جب کہ اعصابی تسکین کے مریض دورہ کے وقت غش کھاکر بے قابو ہوکر گرتا ہے،اس میں پیشاب کی رنگت انتہائی زردی مائل ہوتی ہے اور مقدار میں کم ہوتا ہے، معالج مریض سے پتہ ضرور کرے کہ دورے کے وقت مریض کو پتہ چلتا ہے کہ نہیںاگر پتہ چلتا ہے تو اعصابی عضلاتی تحریک سمجھو اور مریض کو کچھ پتہ نہیں چلتا تو غدی عضلاتی تحریک سمجھو۔غشی کے مریض کو دورہ کے بعد کم ہی پیشاب آتا ہے وہ بھی انتہائی زردی مائل غشی کے مریض کو مفرحات اور خوشبو دار اشیاء اعصابی ادویہ استعمال کرنا ضروری ہے،بے ہوشی والے کو محرکات عضلات استعمال کرائیں ۔اللہ فضل کریگا 

Comments

Popular posts from this blog