PH اورجانوروں کے امراض کی تشخیص ۔حکیم قاری محمد یونس شاہد

PH
اورجانوروں کے امراض کی تشخیص
۔حکیم قاری محمد یونس شاہد
PH
اورجانوروں کے امراض کی تشخیص
عمومی طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ انسانی امراض کا علاج کرنے والے حکماء جانوروں کے علاج کی طرف توجہ نہیں دیتے جبکہ اس طرف توجہ دینا ان اطباء کا بنیادی فرض ہے تاکہ اہل دیہیہ کو طب و حکمت کی راہ سے سستے علاج معالجہ کی سہولت میسر آئے۔راقم کی طبی زندگی میں کئی ایک مرحلے ایسے آئے جب گائے بیل ۔بھینس بکری وغیرہ کے علاج کی ضرورت پیش آئی ۔پہلی بار تو جھجک محسوس ہوئی لیکن اللہ تعالیٰ نے شرح صدر فرمایا اور عمدہ نتائج سامنے آئے۔جس طرح انسانوں کو مختلف امراض پیش آتے ہیں بالکل جانوروں اور مویشیوں کو بھی اسی قسم کے امراض لاحق ہوتے ہیں۔جو انسان تشخیص میں ماہر ہوگا وہ علاج میں بھی کامیاب ہوگا۔ہر کام کے لئے مہارت اور ڈھنگ کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔سب سے پہلے تو معالج صحت و مرض کے درمیان خط امتیاز کھینچے کہ صحت کسے کہتے ہیں اور مرض کیا ہے ؟اس کی مہارت  اس طرح پیدا کی جاسکتی ہیں ۔صحت مند جانوروں کا مطالعہ کیا جائے کہ حالت صحت میں ان کی کیا کیفیات ہوتی ہیں اس کے بعد مرض کی حالت کا بغور جائزہ لیں کہ مرض میں کونسی علامات ظہور پزیر ہوئی ہیں۔بس مرض کی حالت میں پیدا ہونے والی علامات و کیفیات کو دور کردو مویشیوں کا علاج کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔جس طرح انسانوں کو گرمی سردی کے امراض لاحق ہوتے ہیں جانور بھی اسی طرح ان بدلاؤ کا شکار ہوتے ہیں۔
اگر انسانی علاج و جانوروں کے علاج میں کوئی بنیادی فرق ہے تو صرف اتنا کہ انسانوں کی دوائی خوراک کم ہوگی جبکہ جسمانی لحاظ سے جانوروں کو اس دوا کی ضرورت زیادہ ہوگی اس لئے ان کی دوائی خوراک ان کے جسم کے مطابق تجویز کی جانی چاہئے۔حصہ بقدر جثہ۔۔کلیہ یہ ہے کہ جانور کو ایک بڑا انسان تصور کریں اور دیکھیں کہ اگر یہ مرض و علامات کسی انسان میں نمودار ہوتیں تو ان کا کیا تدارک ہوسکتا تھا؟بس وہی سب عمل جانور کے لئے بھی کرگزریں انشاء اللہ نتائج مفیدہ آپ کے دامن میں آگریں گے۔
طبیب کو گائے بھینس کی جسمانی کیفیات مطالعہ کرنی ضروری ہیں ساتھ میں ان کے پیشاب و گوبر کی PHبھی معلوم کریں تاکہ حالت مرض میں کسی بھی مرض کی تشخیص میں دشواری پیش نہ آئے۔بہترین طبیب وہ ہوتا ہے جو اپنے تجربات اور اپنے نسخہ جات کو لکھ کر محفوظ رکھ لیتا ہے تاکہ بوقت ضرورت استفادہ میں آسانی رہے۔لکھنے سے طبیب کو اپنی غلطیوں کے سدھارکا بار بار موقع ملتا رہتا ہے اور تجربات کی صورت میں اعلی ترین نسخہ جات اس کی بیاض کی زینت بنتے جاتے ہیں۔یہ قدم طبیب کو خود انحصاری  کے لئے راغب کرتا ہے ۔


Comments

Popular posts from this blog