دیسی طب کیوں تباہ ہوئی؟.Hakeem qrai m younas

دیسی طب کیوں تباہ ہوئی؟
.Hakeem qrai m younas
دیسی طب کیوں تباہ ہوئی؟
جن لوگوں نے طب و حکمت کی خدمت کے لئے زندگیاں وقف کردیں انہوں نے اس طب کو خون جگر دے کر پروان چڑھایا اس کی اہمیت انہیں لوگوں کے سامنے کھل سکی تھی جو اس پر مفتون ہوگئے ۔ان کی فیاضی نے اس فن کو ان نااہل لوگوں تک پہنچادیا جو اس کے اہل نہ تھے انہوں نے جب اس متاع بے بہا کو دیکھا تو لالچ میں پڑ گئے انہوںنے خود تو کوئی کارنامہ سرانجام نہ دیا لیکن ان کی بخیل طبیعت نے ان خزائن بے بہا کو اپنے گناہوں کی طرح پوشیدہ کرلیا۔وہ تجارب جوزندگیاں گنواکر کئے گئے تھے انہیں نااہل وارثوں نے اسے افادہ خلق کے بجائے صدری راز کہہ کر چھپالیا مجھے اس بات کے تسلیم کرنے میں باک نہیں کہ ایلو پیٹھی میں یہ خوبی پائی جاتی ہے وہ اپنے پروڈیکٹ کے ساتھ اس کمپاؤنڈ کے نسخہ لکھ دیتے ہیں۔وہ کیاہے جو چیز خریدی جارہی ہے اس کی حقیقت کیاہے ؟ جب کہ دیسی نسخہ جات کو یہ سہولت میسر نہیں اگر شرما حضوری سے کسی نے تجارتی فوائد کی خاطر اگر نسخہ لکھ دیا تو اس قدر غلط بیانی سے کام لیا گیا کہ حیرت سے آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیںمثلاََ بازار میں کچھ شربت فروخت ہورہے ہیں جن کی قیمت بہت معمولی ہوتی ہے لیکن اجزائے نسخہ میں شامل قیمتی ترین درج کی جاتی ہیں اگر مذکورہ اجزاء کو اصل حالت میں ڈالا جائے تو ایک تولہ بھی اتنی زیادہ قیمت کا حامل ہے کہ اسے اگر ہزار شیشیاں بھی بنا کر درج شدہ قیمت پر فروخت کیا جائے تو بھی نقصان کا سودا ہوگا۔ جیسے شربت کستوری۔شربت الذہب۔شربت الزعفران ۔ معجون عنبر۔وغیرہ۔حالانکہ اگر صحیح اجزاء درج کردئے جاتے اور ان کی مقدار اور ترکیب ساخت و استعمال ۔اس کے فوائد و اثرات اجمالا لکھ دئے جاتے تو استعمال کنندگان پر خواشگوار اثرات مرتب ہوتے۔غلط بیانی بخل و امساک نے دیسی طب کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے اس میدان میں بڑے بڑے جوہر قابل موجود ہیں لیکن انہیں یہ فکر کھائے جاتی ہے کہ اگر ہم نے اصل نسخہ دوسرے کو بتا دیا تو میری اہمیت کم ہوجائے گی اور میرا اس نسخہ سے متعلقہ اختصاص ختم ہوجائے گا۔ ممکن ہے اسے کم ظرفی کہا جائے گا یہ بات میدان طب میں ہی نہیں بلکہ ہر میدان میں دیکھی جاسکتی ہے۔ طب تو بہت بلند چیز ہے آپ ایک کسی ایسے پیشہ کو ہی دیکھ لیں جسے معاشرتی طور پر خاص اہمیت نہیں دی جاتی وہاں بھی یہی بخل و امساک اپنے بھیانک انداز میں دیکھنے کو ملے گی۔دیسی طب اس وجہ سے زوال پزیر نہیں ہوئی کہ اس میں خامی تھی بلکہ اس لئے تباہ ہوئی کہ اس کے حاملین نا اہل و ناکارہ لوگ نکلے۔نسخہ جات اور تجربات کو لوگوں نے ذریعہ رزق سمجھنے کے بجائے عین زرق سمجھ لیا یہ اس سوچ کے حامل لوگوں کی تنگ نظری تھی جو زوال و انحطاط کی پہلی سیڈھی ثابت ہوئی۔
ادھورا سچ پورے جھوٹ سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے
دوسری بات ادھورے نسخہ جات اور بے جا تعریفات اور رطب و یابس کا موجود ہونا ہے طب کی کتابوں کو دیکھئے وہاں بہت سے طویل داستانوں اور لایعنی خرافات سے مملو ہونگی اور غیر حقیقی باتیں اس انداز سے لکھی گئی ہیں کہ لگتا ہے اگر یہ نسخہ پوری طرح بن گیا تو امرت ساگر ہاتھ لگ جائے گا۔اگر ان لایعنی باتوں کی جگہ تجربات اور تحقیقات درج ہوتیں تو انسانیت کے ساتھ اعلی درجہ کی نیکی ثابت ہوتی۔ادھر لکھنے والے غیرحقیقی باتیں لکھتے ہیں دوسری طرف مطالعہ کرنے والے بھی اسی انداز میں دیکھنے کے عادی ہیں کہ کتابوں میں سچ نہیں لکھا جاتا ۔یا نسخہ جات ادھورے لکھے جاتے ہیں وغیرہ ۔جب ایسی فضا قائم ہوجائے تو طب کو دشمنوں کی ضرورت ہی کیا باقی رہ جاتی ہے ؟
طب کے ساتھ بھی اس کے حاملین نے وہی سلوک کیا ہے جو مسلمانوں نے اسلام کے ساتھ کیا ہے۔اسلام کو ہمیشہ اپنے مقاصد و ضروریات کے لئے استعمال کیا جہاں اسلام کو اپنے حاملین کی قربانی کی ضرورت محسوس ہوئی ہیں ہر چوری کھانے والے مجنوں اس سے برأت اختیار کر گئے۔یہی حامل طب کے ساتھ اہل طب نے کیا ہے مشا ہدات اس بات پر گواہ ہیں کہ اسلام سے بہتر مذہب اور دیسی طب سے زیادہ کوئی طریق علاج سر دست موجود نہیں ہے۔لیکن اس کے حامل کے اندر و باہر ایک جیسے نہیں اسے کاروبار یا روزی روٹی کا سبب بنائے ہوئے ہیں۔بات تو کڑوی ہے مگرکرنا ضروری ہے جو باتیں بیگانوں سے سننے کو ملتی ہیں چاہئے کہ ان خامیوں اور عملی کوتاہیوں خود بھی محسوس کریں تاکہ بہتری کی کرن نظر آسکے۔ کتنے سادہ لوگ ہیں ایک معمولی برتن خریدنے جائیں تو اسے بھی ٹھونک بجاکر دیکھتے ہیں دوکاندار سے ہر طرح کی تسلی کرتے ہیں اس کے معیار کی رسید طلب کرتے ہیں لیکن ایمان و صحت اتنے ازراں و کم قیمت ہیں کہ انہیں کسی بھی حوالے کرنے سے گریز نہیں کرتے جب کہ صحت دنیا کی قیمتی ترین متاع ہے جب ایک بار ہاتھ سے گئی تو دنیا بھر کی دولت خرچ کرکے بھی اسے واپس نہیں لایا جاسکتا۔اس سے زیادہ اہم متاع ایما ن ہے اسے ہم نے مفت میں جہلاء کے حوالے کردیا ہے۔بہت کم دیکھا گیا ہے کہ تعلیم یافتہ طبیب یا امام کی ضرورت محسوس کی گئی ہو جن کی قیمت ہماری نظر اتنی کم ہوتو دوسروں سے شکوہ فضول ہے۔
کم تر سوچ تحقیقات کے میدان میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہے۔
قدرت کی تقسیم کچھ اس طرح واقع ہوئی ہے جو لوگ مالی لحاظ سے مضبوط ہوتے ہیںاور حاکم و مضبوط لوگوں کی سوچ و فکر بھی مضبوط ہوتی ہے ان کی تحقیقات بھی بلند درجہ ہوتی ہیں کم تر سوچ والے کبھی تحقیق و تدقیق والے کام نہیں کیا کرتے کیونکہ تحقیقی کام اور نت نئے تجربات ایسے لوگوں سے ظہور پزیر ہوتے جنہیں چاہنے والے لوگ ملیں ان کی تحقیقات کو استحسان کی نگاہوں سے دیکھا جائے۔ یہاں کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے تحقیقاتی کام کرنے والوں کو معاشرہ سے اس طرح غائب کردیا جاتا کہ دوسرے لوگ اس قسم کا کام کرنے سے پہلے ہزار بار سوچتے ہیں۔یہ بات نہیں کہ دیسی لوگوں میں صلاحیت کا فقدان ہیں۔ نہیں قدرت نے لوگوں کو نواز نے میں فیاضی سے کام لیا ہے لیکن اجتماعی سوچ کچھ ایسی بن گئی کہ حوصلہ افزائی کی کم ہی صورت دیکھنے کو ملتی ہے اس قسم کے گھٹن کے ماحول میں روزی روٹی کی فکر کرنا ہی شاید بہتر فیصلہ سمجھا جاتا ہے۔

Comments

Popular posts from this blog