صحت و تندرستی کیا ہم امراض پھیلانے کے خود ذمہ دار ہیں؟

 صحت و تندرستی
کیا ہم امراض پھیلانے کے خود ذمہ دار ہیں؟

کیا ہم امراض پھیلانے کے خود ذمہ دار ہیں؟
صحت کا برقرار رکھنا اور زیادہ دنوں تک صحت مند رہنا ہر ایک خواب ہے امراض ہیں کہ نت نئی صورتوں میں سر ابھارتے رہتے ہیںاتنے اخرجات کھاپینے اور دیگر ضروریات زندگی پر خرچ نہیں ہوتے جتنے صحت پرہوتے ہیںکسی گھر میں کھانے اور پینے کی اشیاء جائیں یا نہ جا ئیں لیکن ادویا ت ضرور جاتی ہیںامراض کے پھیلائو میں جو اسباب دیکھنے میں آئے ہیں ان کے بالواسطہ یا بلاواسطہ ہر ایک ذمہ دار ہے ۔ امراض کوپھیلانے میں ہر کوئی بساط بھر اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں مصروف ہیں۔ 
سوچ رہے ہونگے کہ ہر کوئی کیسے امراض کے پھیلائو میں ملوث ہوسکتا ہے؟ یہی سوال میرے ذہن میں بھی ابھرا تھا جب غور کیا تو مجھے اپنی سوچ بدلنی پڑی۔دیہات قدرت کا انمول عطیہ ہیں جہاں صاف ہوا صاف پانی اور قدرتی طرز زندگی۔قدرتی ماحول ملتا ہے۔ قدرتی انداز مین اگنے والی سبزیاں۔دودھ۔گھی۔غرض کہ بے شمار قدرت کی نعمتیں موجود ہوتی ہیں۔یہ لوگ صبح سویرے اٹھ کر محنت مشقت میں لگ جاتے ہیں رات گئے تک مصروف عمل رہتے ہیں۔لیکن جب انہیں حکومتی سطح پر ایسی ترغیبیں دی جاتی ہیں کہ فلاں دوا کا سپرے کرو فصل زیادہ پیدا ہوگی۔فلاں کیمیوی کھاد ڈالو بیداوار بڑھے گی۔کیڑوں کو مارنے کے لئے فلاں زہر کا چھڑکائو کرو۔گھاس پھونس کو اس دوا کی ذریعہ قابومیں کرو وغیرہ۔یہ باتیں جہاں بہت سے فوائد رکھتی ہیں وہیں پر قدرتی ماحول پر بھی اثرا انداز ہوتی ہیں۔یہ زہریں انسانی صحت کو گھن کی طرح کھاجاتی ہیں۔اس لئے زیادہ نفع کے لالچ میں اپنی صحت کا سودا کرتے ہیں۔خود بھی کمزور ہورہے ہیں اور نسلوں کو بھی کمزوری منتقل کررہے ہیں۔
اس کے بع4د شہر والوں کا حال اس سے بھی برا ہےکیونکہ یہ لوگ تن آسان ہوتے ہیں۔صحت اور تندرستی کی طرف سے کافی کفایت شعار ہوتے ہیں۔کیونکہ ان کے کھانے پینے میں کیمیکلوں کا بکثرت استعمال ہوتا ہے ۔چھٹکارے اور لذت دہن کی خاطر یہ لوگ صحت کے ساتھ سمجھوتہ کرلیتے ہیں اور اپنے گھروں میں امراض کو کوش آمدید کہتے ہیں۔شہری آبادی میں لوگ پیکنگ پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں ۔یہ لوگ برانڈوں کے دلدادہ ہوتے ہین اونچی دکان پھیکے پکوان والی بات صادق آتی ہے۔یہ لوگ زیادہ محنت و مشقت سے گھبراتتے ہیں اس لئے استعمال شدہ کچرے کو قریبی خالی جگہ ڈال دیتے ہیں جہاں یہ متعفن ہوکر امراض پھیلانے کا سبب بنتا ہے۔
شہری لوگ جس قدر مہیں اور ریفائین شدہ خوراک کے عادی ہوچکے ہیں اس کی وجہ سے امراض معدہ و جگر اور آتیں کے انکیفشن بہت زیادہ دیکھنے کو مل رہے ہیں۔شہروں کا پانی کیمیکلوں کی کثرت نے ناقابل استعمال بنا دیا ہے۔اس سے زیادہ خوفناک کردار سوشل میڈیا کا ہے جس نے ہر منفی خبر کو اچھالنا ہوتا ہے۔یہ میڈیا ہی ہے جس نے تازہ دودھ کو جراثیم ذدہ اور غیر صحت مند قرار دیا اور ڈبے کے دودھ کو صحت و سلامتی کا ضامن قرار دیا۔شہری خواتین عمومی طورپر میڈیا سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔جو باتیں میڈیا پر سنتی اور دیکھتی ہیں انہین ضرور آزماتی ہیں۔کیونکہ ان کے پاس خرچنے کے لئے پیسے ہوتے ہیں۔امیروں کو تو یہی فکر ستاتی رہتی ہے کہ کوئی نئی ڈش آئے اوراس سے لطف اندوز ہوں۔یا درکھئے قدرتی طورپر  ایسے ذائقے پیدا نہیں ہوتے جو کیمیکل اور مصالحوں کی بنیاد پر پیدا کئے جاتے ہیں۔ یہ کیمیکل جسم انسانی میں کسی حد تو ٹھیک رہتے ہیں لیکن ان کی بہتات اعضائے ہضم کو چیخنے پر مجبور کردیتی ہے۔
شہری لوگ قدرتی سہولتوں کو پیسے کے بل بوتے پر حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔تن آسانی اور راحت طلبی انہیں مزید ناکارہ بنا دیتی ہے جس سے ان کی قوت مدافعت بہت کم ہوجاتی ہے۔مثلاََ سردیوں میں ہیٹر کا استعمال اور گرمیوں میں اے سی کا استعمال پیدل چلنے کے بجائے سواریوں کا استعمال۔جب کثرت سے گاڑیاں استعمال کی جائیں گی تو فضائی آلودگی بڑھے گی۔ کچرے کے ڈھیروں سے اٹھنے والا تعفن اور دھوئیں کے بلند ہونےوالے بادل انسانی صحت کو دیمک کی طرح چاٹ لیتے ہیں۔مصنوعی غذائوں اور غیر صحت مند ماحول نے بچوں کو وقت سے پہلے بالغ کردیا ہے اور جوانوں کو وقت سے پہلے بوڑھا اوربوڑھوں کو اچاہج اور دوائوں کے بل بوتے پر زندگی گزارنے پر مجبور کردیا ہے۔
طب نبوی صحت کی ضامن ہے۔
طب نبویﷺ ایک ایسا فارمولاہے جو انسانی زندگی کو اس نہج پر ڈھالتا ہے جو بیمار ہونے سے پہلے صحت کو برقرار رکھنے کا طریقہ بتاتاہے کوئی انسان کتنا بھی راحت طلب اور سست و کاہل ہو اگر طب نبوی اور اسلامی اعمال کا لحاظ رکھے گا تو اس کی زندگی بہت سی قباحتوں سے محفوظ ہوجائے گی۔وہ نماز کے لئے مسجد تک چل کر جائے گا۔وضو کرے گا۔سحر خیزی کا عادی ہوگا۔مسنون طریقے سے کھانا کھائے گا۔صفائی و نطافت اس کی زندگی کا جزو لازم ہونگے ۔سال میں رمضان کے روزے اس کے سال بھر کے امراض کا تدارک کا سبب بنیں گے۔نوافل کی ادائیگی اسے مزید چاق و چوبند کردیگی۔غرض کہ مذہبی طرز زندگی ہر طرح سے خیر ہی خیر کا سبب بنے گی۔
۔۔۔۔۔
حررہ حکیم قاری محمد یونس شاہد میو۔۔منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ کاہنہ نو لاہور



Comments

Popular posts from this blog