قران اورطب نبویﷺ کا طریق علاج۔

قران اورطب نبویﷺ کا طریق علاج۔



قران اورطب نبویﷺ کا طریق علاج۔
طب نبویﷺ کا طریق علاج فطری ہے قران کریم اس کی اساس اور احادیث مبارکہ اس کی تشریح ہیں۔انسانی صحت پر اسلام کوئی سمجھوتہ نہیں کرتا۔اسلام نے سب سے مقدم انسانی صحت کو رکھا ہے جب اس کی صحت وتندرستی کی بات آتی ہے تو اسلام اپنے احکامات میں نرمی کی اجازت دیتا ہے۔سب سے مقدم انسانی صحت کو بحال رکھنا ہے۔کیونکہ صحت کے بگاڑ کے بعد اسے بحال کرنے میں جو وقت اور وسائل خرچ ہوتے ہیں اسلام انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔صحت کے ساتھ ساتھ وسائل کے ضیاع کو بھی روکتا ہے۔ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو عبادات اور اسلامی احکامات عین طبی اصولوں کی پیروی معلوم ہوتی ہے جہاں اطباء کا ذہن نہیں پہنچ پاتا وہاں اسلام نے انہیں اصولوں کو عبادات کے ساتھ شامل کردیا ہے تاکہ انسانی صحت کو حتی الوسع برقرار رکھا جاسکے۔
(1)رائج الوقت طرق علاج انسانی صحت کی طرف اس وقت متوجہ ہوتے ہیں جب وہ خراب ہونے لگے یا بیماری طوالت پکڑ لے خود انسان بھی جب تک اس کا بس چلتا ہے بگڑتی صحت کی طرف خود بھی توجہ نہیں دیتا جب قویٰ جواب دے جائیں اس وقت اپنے آپ کو بیمار سمجھتا ہے اسلامی احکامات اورہدایات انسانی صحت کے لئے بہت ضروری ہیں مثلاََ بوقت ضرورت غسل کرنا۔پانچ وقت وضو کرنا۔بروقت قضائے حاجت کرنا۔نجاست کو صاف کرنا۔رمضان میں پورے ماہ روزے رکھنا۔ اسے ہمیں طبی زبان میں حفاظتی طب کہتے ہیں یعنی طب وقائی۔طب نبوی کا یہ پہلو دیگر طرق علاج سے بالکل الگ اور جداگانہ ہے کیونکہ انسان اس طریقے سے صحت کو تادیر قائم و دائم رکھ سکتا ہے  اگر اس کے ساتھ کھانے پینے کے بارہ میں مذکورہ ہدایات پر عمل کرلیا جائے تو سونے پے سہاگہ ہے۔
(2)انسانی زندگی ایک مشنری کی مانند ہے جو ہمہ وقت مصروف عمل ہو اسے بدل مایتحلل کی ضرورت پڑتی ہے۔اس لئے غذا /پانی / صاف ہوا/فضلات کا اخراج۔بیداری نیند/محنت و راحت وغیرہ اس کی بنیادی ضروریات ہیں۔اگر ان کی طرف سے توجہ نہ دی جائے تو بہت کم وقت میں انسانی منشری میں خرابی آنا شروع ہوجاتی ہیں۔یہی وقت اطباء اور معالجین کی طرف رجوع کرنے کا ہوتا ہے ۔ جب بیمار انسان کسی معالج کے پاس جاتا ہے تو بڑےجھنجٹ میں پڑتا ہے۔کہیں ٹیسٹ/کہیں تشخیصی مراحل/کہیں معالجین کی فیس تو کہیں ادویات کے اخرجات۔اس سلسلہ کی کڑیا ںہیں۔
پہلی بات تو یہ سمجھیں کہ انسانی جسم بیمار کیوں ہوتا ہے؟اس کے دو اسباب ہیں ایک تو خوراک /غذا کی کمی/دوسرا سبب فاضل مواد کے اخراج میں رکاوٹ پیدا ہونا۔اگر انسانی کو بر وقت بنیادی ضروریات یعنی غذا صاف ہوا ۔پینے کے لئے صاف پانی۔بروقت نیند اور سستانے کے لئے وقت نہیں ملتے تو یہ بیمار پڑجاتا ہے۔بھوک اور افلاس سے احادیث مبارکہ میں پناہ مانگی گئی ہے۔لیکن آج جس دور میں ہم سانس لے رہے ہیں بھوک سے کم بسیار خوری سے زیادہ امراض جنم لے رہے ہیں۔
جب بسیار خوری ہوگی تو اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے فضلات کو خارج بھی کرنا پڑے گا۔اگر انسان بروقت مناسب غذا لے تو فضلات خوف بخود خارج ہوجاتے ہیں کسی دوا یا علاج کی ضرورت نہیں۔لیکن اگر بے اعتدالی حد سے تجاوز کرجائے تو علاج کی ضرورت پیش آتی ہے۔معالج کا کام ہے کہ مریض کو بتائے کہ کونسی غذا مفید اور کونسی غذا بیماری کو بڑھا سکتی ہے اس لئے غیر مفید غذا روک دی جائے۔بیماری کا سبب غیر ضروری مواد کے رکنا ہے اس لئے معالج ایسی تدابیر اختیار کرتا ہے جس سے غیر ضروری مواد جسم سے خارج ہو جائے حدیث مبارکہ میں ایک واقعہ بیان ہوا کہ ایک صحابی نے اپنے بھائی کے پیٹ خراب ہونے کی شکایت فرمائی تو دربار نبوت ﷺ سے شہد پلانے کے لئے حکم ہوا۔۔کیونکہ شہد میں زبردست قوت اخراج ہائی جاتی ہے۔
اطباء کرام اور دیگر دیسی طرق علاج میں بھی مواد کے اخراج کی تدابیر کی جاتی ہیں۔مثلاََ نشتر سے چیرا دیا جانا۔ایلو پیھی میں آپریشن کرنا۔یا امالہ مواد کے لئے خوردنی طورپر دوا کھانا۔جلاب و مسہلات کا استعمال۔سب کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ غیر ضروری مواد جسم سے خارج کرد یا جائے۔حجامہ /مالش/سینکنا/ورزش وغیرہ سب کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ رکا ہوا مواد جسم سے نکل جائے۔ 
(3)بیماری کے بعد صحت کو لوٹانے کے لئے اور طبعی کمزروی کو دور کرنے کے لئے مناسب غذا اور نقصان دہ اشیاء سے پرہیز دینا ایک معالج کی ذمہ داری میں شامل ہے اور معالج کی باتوں کو دھیان سے سننا اور ان پر عمل کرنا مریض کی ذمہ داری ہے۔دوران علاج علاج معالج کچھ اشیاء سے منع کرتا ہے اس لئے کہ  اس غذا سے پیدا ہونے والا مواد جسم کے اندر پہلے سے زیادہ مقدار میں موجود ہے اگر پرہیز نہ کیا گیا تو مرض میں افاقہ کے بجائے اضافہ کا خطرہ ہے۔
علاج  و معالجہ میں پرہیز کیوں دئے جاتے ہیں؟
ہر طبیب کے ذہن میں  مریض کے سلسلہ میں کچھ قوانین موجود ہیں ان میں سے غذا کا تعین اور پرہیزوں کی فہرست۔اس کا سبب یہ ہے جو مواد جسم میں پہلے ہی حد اعتدال سے بڑھا ہوا ہے اگر اسی خلط والی اشیاء بطور غذا کھائی جائیں تو مواد کے تحلیل ہونے اور خارج از جسم ہونے کی دیر لگے گی جس سے علاج میں زیادہ وقت اور معالجہ میں تاخیر ہوگی۔اس لئے جو خلط جسم انسانی میں کم ہوگئی ہے اسے پورا کرنے کے لئے اسی مزاج کی غذائیں کھانے سے جلد آرام آتا ہے۔نقصان والی اشیاء کے استعمال سے علاج میں تاخیر ہوتی ہے۔
فاسد مواد کے اخراج کو مختلف علاقوں میں مختلف انداز سے خارج کرنے کے طریقے رائج ہیں کوئی مالش کرتا ہے کوئی فصد کھولتا ہے۔کوئی حجامہ کراتا ہے تو کوئی جونکیں لگواتا ہے۔ببھاپ دینے کی ضرورت بھی اسی لئے پیش آتی ہے تاکہ مواد کو تحلیل کیا جاسکے۔ غذا و علاج کے لئے بہت سی ہدایات طب نبویﷺ میں موجود ہیں۔ایک بار حضرت علی  رضی اللہ عنہ کی آنکھ میں تکلیف تھی تو رسول اللہﷺ نے کھجور کھانے سے منع فرمایا۔ واقعہ یوں ہے
ام منذر بنت قیس انصاریہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، آپ کے ساتھ علی رضی اللہ عنہ تھے، ان پر کمزوری طاری تھی ہمارے پاس کھجور کے خوشے لٹک رہے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر انہیں کھانے لگے، علی رضی اللہ عنہ بھی کھانے کے لیے کھڑے ہوئے تو آپ نے علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”ٹھہرو (تم نہ کھاؤ) کیونکہ تم ابھی کمزور ہو“ یہاں تک کہ علی رضی اللہ عنہ رک گئے، میں نے جو اور چقندر پکایا تھا تو اسے لے کر میں آپ کے پاس آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”علی! اس میں سے کھاؤ یہ تمہارے لیے مفید ہے“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ہارون کی روایت میں «انصاریہ» کے بجائے «عدویہ» ہے۔تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/ الطب 1 (3037)، سنن ابن ماجہ/الطب 3 (3442)، (تحفة الأشراف: 18362)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/363، 364) (حسن)» 
مختصرا یوں سمجھ سکتے ہیں۔جو انسانی جسم میں کرچ ہونے والی ضرورت کو پورا کرے وہ غذا ہے۔جو غیر ضروری اور فاسد مواد کو جسم سے خارج کرے وہ دوا ہے۔جو بیماری کو لوٹنے سے روکے وہ پرہیز ہے۔یہی تمام طرق علاج  کا لب  لباب ہے۔

Comments

Popular posts from this blog