نامعلوم وائرس کا خوف کرونا وائرس کے تناظر میں لکھا جانے والا مضمون

نامعلوم وائرس کا خوف
کرونا وائرس کے تناظر 
میں لکھا جانے والا مضمون


یہ نامعلوم وائرس ہے؟؟؟حقیقت یا افسانہ۔۔
عمومی طورپر جب کوئی وباء پھیلتی ہے تواسے قابو میں کرنے کے لئے لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں۔ملٹی نیشنل کمپنیوں کی چاندی ہوجاتی ہے۔نت نئی دوائیں مارکیٹ میں فروغ پاتی ہیں۔جب دس بیس افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں تو مختلف کونوں سے آوازیں بلند ہونا شروع ہوجاتی ہیں کہ اس وائرس کا توڑ مل گیا ہے ۔اب اس وباء کو قابو میں کرلیا جائے گا۔وبا قابو ہویا نہ لیکن کھربوں ڈالرغریبوں کی جیب سے نکل کر امیروں کے اکائونٹ میں ضرور سرک جاتے ہیں۔کچھ لوگ تو حقیقی طور پر اس وباء کا شکار بنتے ہیں لیکن کئی گنا زیادہ افراد خوف کی بنیاد پر ادویات کا استعمال شروع کردیتے ہیں۔اس کا دوہرا نقصان ہوتا ہے ایک تو وسائل برباد ہوتے ہیں دوسرے مستحق لوگوں تک دوا نہیں پہنچ پاتی۔نتیجہ یہ ہوتا ہے ماہرین اس کی ویکسین بنانے میں بہت دقت محسوس کرتے ہیں۔چور بازاری کی وجہ سے دستیاب ادویات بھی دائیں بائیں کردی جاتی ہیں۔
وبائیں کیوں پھیلتی ہیں؟
پہلے لوگوں کے پاس اس قدر سہولتیں موجود نہ تھیں کہ وبائوں کو روک سکتے لیکن آج کا انسان دعوے دار ہے کہ اس نے بہت ترقی کرلی۔وہ احتیاطی تدابیر پہلے لوگوں کی نسبت بہت بہتر کرچکا ہے۔لیکن انسانی معاشرہ میں وبائیں ان کی ساری احتیاطی تدابیر کوخاک میں مل دیتی ہیں ۔پہلے زمانے میں وبائیں قدرتی انداز میں پھیلا کرتی تھیں مگر آج کے دور میں وبائیں پھیلتی نہیں پھیلائی جاتی ہیں۔ان کے لئے بڑے بجٹ کے ساتھ وائرس اور انٹی وائرس تیار کئے جاتے ہیں۔ان وبائوں کو دیگر اشیاء کی طرح مارکیٹ میں اتارا جاتا ہے۔وبائیں پھیلانے کے لئے بہت محنت کرنی پڑتی ہے۔سالوں تک لبارٹری تجربات کئے جاتے ہیں۔بے شمار دولت پانی کی طرح بہائی جاتی ہے۔بیماریوں کے نام تجویز کئے جاتے ہیں اودیات کے نام رکھے جاتے ہیں۔مخلتف مراحل سے گزرکر ایسی فضاء تیار کی جاتی ہے جس میں خوف کا ماحول جنم لے سکے۔جب مارکیٹ میں اس خوف کو فروخت کیا جاتا ہے تو خرچ کی گئی رقم کو سود سمیت واپس لیا جاتا ہے۔ایک وائرس کاخوف ایک دو نسلوں کو نگل جاتا ہے۔
ماضی کے تجربات اور آج کا خوف۔
یہ کہانی ماضی سے جڑی ہوئی ہے جنگ عظیم دوم کے آپس پاس کچھ خاص قسم کے تجربات کئے گئے ممالک کو خوف فروخت کرنا تھا کچھ ممالک کو اس کی ضرورت تھی اور کچھ لوگ اس کے گاہگ تھے۔اسی زمانے میں یورینیم ایٹمی تابکاری دنیا میں مخصوص انداز میں متعارف کرائی گئی  جس سے ماحول کا درجہ حرارت بڑھ گیا اور دنیا میں اس گرمی کی وجہ سے گلینڈ سسٹم میں سوزش ہونے لگی۔سوزشی ورم ۔پھوڑے صفرراوی امراض صفراوی کینسر(کارسی نوما کینسر)کے ٹیومر زہریلی گلٹیاں انسانی جسم کا خون چوسنے لگیں اور اپنا زہریلا مواد خون میں چھوڑنے لگیں۔انسانی خون یں جب یہ زہریلے اجزاء شامل ہوکر ضعف قلب یعنی ہارٹ اٹیک۔دائیں طرف کے فالج۔ضعف باہ ۔کمزوری/ورم جگر گردوں کی سوزش جیسے امراض و علامات ہر طرف سے انسانی دنیا کو خوف ذدہ کرنے لگے۔ہیپا تائٹس ایک عالمی مرض کے طورپر متعارف کرایا گیا۔جگر کا پھوڑا اتنا خوف ناک ثابت ہوا کہ اس کے لئے نئی انڈسٹری نے جنم لیا۔یورینیم کی تابکاری سے ہاتھ پائوں کے تلوے جلنا،خون کی کمی،جلق۔بلڈ کینسر۔قوت ارادی کا فقدان۔پاگلوں جیسی حرکات۔حافظہ کا کمزور ہونا۔فوری الفاظ زبان پر نہ آنے کی شکایات کا پیدا ہونا۔بلڈ پلازمہ یعنی خون کے سیرم کا زہریلا ہونا اور جگر کی تحریکوں کا وبائی صورت اختیار کرنا وغیرہ وغیرہ۔
(2)پلاٹینیم۔کو ریایکٹر میں کشتہ کیا جانا یعنی پلاٹینیم کے ایٹم پھاڑے جائیںتا ایک خاص قسم کی تابکاری جنم لیتی ہے اس سے کائنات میں مہلک اثرات جنم لیں گے۔انسانی جسم کے مسکولر ٹشوز متاثر ہوتے ہیں خشکی اور سوراکی اثرات کی بھرمار ہوجاتی ہے۔ریڈ سیلز اور مسکولر ٹشوز خراب ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔بواسیر دق جیسے عوارضات انسانی زندگیوں کو اجیرن بنا دیتے ہیں۔لواطت اغلام بازی۔احتلام،دل کی دھڑکنوں کی تیزی کی شکایات عام ہوجاتی ہیں۔انسانی اعصابی عوارت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔جسم پر نچبل۔دھدر رنگ ورم۔ہاتھوں اور پائوں پر فالج جیسے امراض کی بارش ہونے لگتی ہے۔یہ خشکی کی زیادتی اور خلط صفرا کی کمی کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں۔یہ سب باتیں عضلاتی تحریک کا مظہر ہوتی ہیں
(3)ہائیڈروجن۔
اگر ایٹمی ریایکٹر میں ہائیڈروجن کے ایٹم پھارے جائیں۔تو اس سے اعصابی امراج و علامات کے حملے ہوتے ہیں اعصابی وبائیں جنم لیتی ہیں۔جیسے قے دست دمہ کالی کھانسی وغیرہ انسانی کون میں آتشکی زہر ۔جذزامی زہر یعنی سفلس پوائزن پیدا ہونے کا سبب بنتے ہیں۔عمومی طورپر  بائیں ہاتھ پر فالج،مردوں مین جریان۔عورتوں میں لیکوریا۔دائمی نزلہ۔اسہال نامردی جیسی علامات دیکھنے کو ملتی ہیں۔   
آج کا خوف کرونا وائرس۔۔
کرونا وائرس نے چین کے ساتھ پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔پوری دنیا کی معیشت کو دبوچلینے والا چین اس وقت خوف کے عالم میں سانیں لے رہا ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ اخلاطی بگاڑ کو دیکھا جائے اور اعضاء کے مطابق اس کی تشخیص کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کا توڑ نہ کیا جاسکے۔ لیکن اس جرثومے کو مارکیٹ میں اتارا گیا ہے اور میڈیا نے انسانی ذہن میں اس قدر خوف بھر دیا ہے کہ سوائے ملٹی نیشنل کمپنیوں کی بات کے کسی کی بات پر کان دھرنے کے لئے آمادگی دکھائی نہیں دیتی۔شاید اس خود ساختہ خوف کا بنیادی مقصد تھا۔کچھ لوگوں کا کہنا ہے فلاں چیز کھائی اس وجہ سے یہ وائرس پھیلا ۔سوچنے کی بات یہ ہے کیا انہوں نے یہ چیز پہلی بار کھائی ہے؟یا نسلوں سے کھائی جارہی ہے؟
اسلام کی نظر میں وبائیں
اسلامی قوانین اور اسلامی معاشرت نے وبائوں کے وجود کو تسلیم کیا ہے اور ان کے بارہ میں مختلف قسم کی ہدایات دی ہیں۔اس وقت تک معلوم وبائیں  جب آتی تھیں جیسے طاعون وغیرہ تو ان کے متعلق احکامات دئے جاتے تھے۔آج بھی ان حکامات کا اطلاق ایسے ہیں ہوگا جیسے پہلے وقت میں پھیلنے والی وبائوں کے وقت تھا۔اسلام نے زندگی گزارنے کے جو اصول عطاء کئے ہیں وہ0 اس قدر اہم ہیں کہ انکی موجودگی میں وبائوں کے اثرات کو پگیلنے سے روکا جاسکتا ہے۔جیسے پاکیزگی۔غسل۔وضو وغیرہ۔اس کے علاوہ کھانے پینے کے اصولوں کو اپنا لیا جائے تو وبائیں پھیلنے سے پہلے ہی دم توڑ جائیں۔یعنی ایسا ماحول ہی جنم نہ لے سکے جو وباء پھیلنے کا سبب بن سکتا ہو۔

Comments

Popular posts from this blog