شیخ مفید رہ کی زندگی کا مختصر جائزہ




شیعہ عالم حقیقی
___________
شیخ مفید رہ کی زندگی کا مختصر جائزہ ۔۔
شیخ مفید عالم تشیع کی معروف ترین شخصیت ہیں، جنھوں نے اپنی زندگی امام زمانہ کے نزدیک ترین ایام میں بسر کی، آپ 334 یا 338 ھ کو پیدا ہوئے اور 413 ھ میں اس دار فانی کو چھوڑا۔ اپنی زندگی کے تمام شب و روز علوم آل محمد (ع) کی ترویج میں مشغول رہے۔ آپ نے جب ذات پروردگار کی آواز پہ لبیک کہا تو اس وقت تک آپ نے اپنے علمی اساسے کے طور پر نہایت اہم علمی ذخیرہ مذہب تشیع کیلئے چھوڑا۔ اس ذخیرے کی تعداد 200 کے قریب ذکر کی جاتی ہے۔ جن میں حدیث جیسے اہم موضوع سمیت علم کلام کے موضوع پر بیشتر کتب لکھیں لیکن علم اصول فقہ، علوم قرآن ، امام شناسی جیسے موضوعات پر بھی آپ نے قلم اٹھایا۔ آپ کی زندگی کا ایک نہایت اہم پہلو جو قابل ذکر ہے وہ یہ ہے کہ آپ نے دوسرے اسلامی مکاتب فکر کے علماء سے مختلف علمی موضوعات پر گفتگو کی اور ہمیشہ اپنے علمی دلائل سے اپنے مخاطب کو زیر کیا۔ اپنے اس زندگی کے سفر میں تحریر و تالیف کے ساتھ ساتھ آپ نے شاگرد پروری کی اور اپنے بعد شاگردوں کا ایک بے نظیر نمونہ چھوڑا۔
شیخ مفید کی عظمت
شیخ مفید کی عظمت کا اندازہ اس واقعہ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جسے معتزلی عالم دین ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں سید فخار بن علوی سے ان الفاظ سے نقل کیا ہے :
” شیخ مفید ابو عبد اللہ محمد بن نعمان امامی نے خواب میں دیکھا کہ وہ کرخ کی مسجد میں بیٹھے ہیں کہ اسی اثنا میں سیدہ کونین حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام اپنے ساتھ اپنے دونوں فرزند حضرت امام حسنؑ، اور حضرت امام حسین علیہم السلام کو لئے ان کے پاس آئیں. اپنے بیٹوں کو شیخ مفید کے سپرد کرتے ہوئے سیدہ نے فرمایا : تم انہیں فقہ کی تعلیم دو. شیخ مفید اس خواب کو دیکھ کر نہایت حیران ہوئے، صبح جب مدرسے میں تدریس کیلئے آئے تو کیا دیکھتے ہیں سیدہ فاطمہ بنت ناصر اپنی کنیزوں کو ساتھ لئے اپنے دو بیٹوں: سید محمد رضی اور سید علی مرتضی کو شیخ مفید کے پاس آئیں اور ان سے کہا : انھیں فقہ کی تعلیم دو۔ یہ ماجرا دیکھ کر شیخ مفید کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے. آپ نے رات کا خواب ان کے سامنے بیان کیا.
شیخ مفید نے ان کی سرپرستی کو قبول فرمایا اور تعلیم کا سلسلہ شروع کیا۔ خداوند کریم نے سیدین پر اپنے انعامات کو نازل فرمایا اور ان پر ایسے علم و فضائل کے ابواب کھولے کہ جن کی بدولت رہتی دنیا تک آفاق میں ان کا نام ہمیشہ باقی رہے گا۔
وفات
413ھ کے رمضان کے مہینے میں شیخ مفید 75 سال یا 77 سال کی پر برکت عمر گزار کر اس دنیا فانی سے رخصت ہوئے، بعض نے ان کی تاریخ وفات میں جمعرات کا دن اور رمضان کی دو تاریخ نقل کی ہے۔ شیخ طوسی کے کہتے ہیں کہ "میں نے اپنی زندگی میں کسی کی وفات پر اس سے بڑا جم غفیر نہیں دیکھا۔ لوگ اعتقادی اور مذہبی تفریق کے بغیر ان کے جنازے میں شریک ہوئے تھے. ہر مذہب و عقیدے کے شخص نے ان کے جنازے میں شرکت کی”۔ مؤرخین نے ان کے جنازے میں شریک ہونے والے شیعہ لوگوں کی تعداد 80000 بیان کی ہے دوسرے مذاہب کے لوگ ان کے علاوہ تھے۔ میدان "اشنان” میں ان کی نماز جنازہ سید مرتضی نے پڑھائی اور انہیں ان کے گھر کے صحن میں دفن کیا گیا۔ دو سال کے بعد ان کے جسد کو حرمین کاظمین کی پائنتی کی جانب قریش کی قبروں کی طرف ابو القاسم جعفر بن محمد بن قولویہ کی سمت دفنایا گیا۔
سورہ فاتحہ کی اپیل ہے برائے ارواح علماء حقہ و آیت اللہ عظام
📝تحقیق
مظھر علی مطھری النجفی
009647716025860
حوالہ:شبیری، گذری بر حیات شیخ مفید، ۱۴۱۳ق، ص۳۹.طوسی، الفهرست، ۱۴۱۷ق، ص۲۳۹.
نجاشی، رجال، ۱۴۰۷ق، ص۴۰۳-۴۰۲

Comments

Popular posts from this blog