احادیث نبوی ﷺ کی تفہیم کے لئے فن طب میں مہار ت درکار ہوتی ہے۔



میری کتاب۔علماء اور مدارس کے طلباء کے لئے 
طب سیکھنا کیوں ضروری ہے؟
سے ایک اقتباس
احادیث نبوی ﷺ کی تفہیم کے لئے فن طب میں مہار ت
 درکار ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کو پیدا فرمایا ہے اس کی ضروریات اور اس کی غذا و خوراک اور نقصان کی صورت میں اس کا
ازالہ یا بیماری کا علاج پیدا کرنے والا بہتر انداز میں جانتا ہے اسی طرح انسانی ضروریات خواہشات،اور اس کے دل و دماغ میں پنپنے والے خیالات اور  صحت و تندرستی کے پیمانے وہ بہتر انداز میںجانتا ہے 
۔الایعلم من خلق وھو الطیف الخبیر۔
ہم مسلمانوں کا بنیادی عقیدہ ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو اپنی مرضی کی باتیں اور غیوبات سے آگاہ فرماتا ہے وہ بلاکم و کاست وہ پیغامات انسانوں تک پہنچا دیتے ہیں ۔عمومی طورپر قران و احادیث میں کلیات اور بنیادی قوانین بیان کئے گئے ہیں اگر کسی معاملہ میں کہیں تشریح موجود ہے تو وہ حالات اور وقت تقاضا کی وجہ سے بیان ہوئے ہیں،احکامات شریعہ میں سے قران و حدیث کو بنیادی ماخذ کی حیثیت حاصل ہے۔ عبدالطیف البغدادی(المتوفی629ھ)لکھتے ہیں’’الطب سنۃ القائمۃ،لانہ علیہ السلام فعلہ وامرہ‘‘(الطب من الکتاب والسنۃ179)کہ طب (سیکھنا اور کام میں لانا)سنت قائمہ ہے۔ایسا ہی رسول اللہﷺ نے کیا اور ہمیں حکم دیا۔
طب میں بھی یہی اصول اختیار کیا جائے گاقران و حدیث میں مذکورہ اناج،نباتات ، حجریا ت اور جتنے بھی طبی لحاظ قوانین بیان ہوئے ہیں وہ بنیادی حیثیت رکھتے ہیں جس طرح دیگر علوم و فنون میں قران و حدیث سے استشہاد کیا جاتا ہے اسی طرح طب میں بھی یا جائے گا علمائے کرام اور مفتیان عظام اس طرف غور فرمائیں کہ یہ استخراجی کام کیا جہلا ء یا غیر مسلم کریں گے؟دینی طبقہ اس طرف متوجہ نہیں ہوتا اگر دیگر شعبہ جات دین کی خدمت کے زمرے میں آتے ہیں تو کیا اسے دینی خدمت قرار نہیں دیا جاسکتا؟
یقینا یہ خالص دینی خدمت ہے جس طرح مساجد و مدارس میں علمائے کرام اور دین سے وابسطہ لوگ خدمات سرانجام دے رہے ہیں اسی طرح ان مدارس و مساجد میں اگر طبی لحاظ سے کوئی نظام قائم کرنا چاہئے جو اس اہم اور معاشرتی ضرورت کو پورا کرسکے۔ویسے بھی ہر امام صاحب کے حجرے میں دم جھاڑے کے ساتھ ساتھ چھوٹی موٹی دواؤں کی شیشیاں بھی رکھی ہوتی ہیں۔دم جھاڑے کے ساتھ دوا دارو کا سلسلہ بھی غیر محسوس طریقہ سے چلتا ہے اگر ہم اسے پیشہ ورانہ طریقہ کار فراہم کردیں تو معاشرہ کے لئے بہت خوشگوار تجربہ ہوگا۔جولوگ لاکھوں روپے دیکر زہریلی ادویات پھانکنے پر مجبور ہیں اگر انہیں قدرتی انداز علاج مہیا کر دیںگے تو وہ بہت سے اخرجات سے بچ جائیں گے اور جہاں سے ضرورت پوری ہوتی ہے اس طرف توجہ بھی کرتے ہیں جب انہیں معلوم ہوگا کہ مسجد و مدارس کے منتظمین ان کے دکھ درد میں ساتھ دے رہے ہیں تو ان کا تعاون اور توجہ ان اداروں کے ساتھ مربوط و مضبوط ہوگا ادارے مالی لحاظ سے منظم ہونگے اور دینی طبقہ مالی لحاظ سے آسودہ ہوگا یقینا اگر ایسا کوئی نظام تشکیل پاتا ہے تو مساجد و مدارس والوں کے ساتھ ساتھ نئے فضلاء کے لئے ایک وسیع میدان عمل بھی مہیا کرنے کا سبب بنے گا۔

Comments

Popular posts from this blog